موت کے جبڑوں میں

 موت کے جبڑوں میں  موت کے جبڑوں میں

 موت کے جبڑوں میں

آج دل کے کسی گوشے میں ایک سوچ کروٹیں لے رہی ہے — ایک سوال، ایک ایسا خیال، جو شاید ہر باشعور انسان کے دل میں ہلچل پیدا کر دے۔ یہ کوئی معمولی خیال نہیں، بلکہ وہ اندرونی صدا ہے جو ہم سب کے باطن میں کبھی نہ کبھی ضرور ابھرتی ہے۔

مولانا جلال الدین رومی کی لازوال تصنیف مثنوی میں ایک حکایت ہے جو برسوں پہلے پڑھی تھی، اور جس کا مفہوم میرے ذہن سے کبھی محو نہیں ہوا۔ یہ حکایت آج بھی میری سوچوں پر حاوی رہتی ہے

ایک طاقتور شیر اپنے تیز اور مضبوط جبڑوں میں ایک بکری کو دبوچے ہوئے، اسے لے کر جا رہا ہے۔ یہ منظر کسی بھی دیکھنے والے کے لیے خوفناک اور حتمی انجام کا عکاس ہے۔ بظاہر بکری کا شکار مکمل ہو چکا ہے، اس کی زندگی کے لمحات گنے چنے ہیں۔

لیکن اس حیرت انگیز منظر کا سب سے پریشان کن پہلو یہ ہے کہ بکری اپنی ہی سوچوں میں گم ہے۔ وہ اپنے معمولات کی لَے میں بہی چلی جا رہی ہے — شاید چارے کی فکر میں ہے، یا اپنے ریوڑ کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ اسے ذرا بھی احساس نہیں کہ وہ ایک بھیانک انجام کی طرف بڑھ رہی ہے، گویا سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا ہو۔

یہ منظر بارہا میرے تصور کی آنکھوں کے سامنے آتا ہے، بلکہ یوں لگتا ہے جیسے وہ بکری میں ہی ہوں — اور ہم سب ہیں۔ ہم انسان اکثر اسی بکری جیسی غفلت کا شکار ہیں۔ موت، وہ حتمی حقیقت جو ہر لمحہ ہمارے تعاقب میں ہے، خاموشی سے ہمیں اپنی آہنی گرفت میں لیے چلی جا رہی ہے۔ مگر ہم دنیا کے جھمیلوں میں، اپنے لامتناہی منصوبوں میں، اور عارضی لذتوں کے حصول میں ایسے محو ہیں جیسے یہ دنیا مستقل ہو اور ہمیں یہاں ہمیشہ رہنا ہو۔ یہ فریبِ ہستی اتنا گہرا ہے کہ ہم حقیقت سے نظریں چرا لیتے ہیں۔

ہم صبح سے شام تک مال و دولت جمع کرنے، عہدے اور مقام پانے، اور مستقبل کے ایسے خواب بننے میں مشغول رہتے ہیں جو شاید کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکیں۔ ہم اپنی زندگیوں کے ہر پہلو کو اس طرح منظم کرتے ہیں جیسے ہم نے ہمیشہ یہاں رہنا ہو، اور موت کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔ کیا یہ ہمارے لیے ایک دردناک حقیقت نہیں کہ ہم اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے کتراتے ہیں جو سب سے زیادہ یقینی ہے؟

ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو اس بنیادی سوال پر سنجیدگی سے غور کرتے ہیں

 موت کے جبڑوں میں
موت کے جبڑوں میں

کیا ہم موت کے لیے تیار ہیں؟

میں نے کبھی موت سے ڈرنے کی بات نہیں کی۔ موت تو ایک ناگزیر حقیقت ہے، ہماری ہم سفر ہے، ہمارے کندھے سے لگی ہوئی، خاموش، پرسکون، بے آواز۔ یہ تو بس ایک مقررہ وقت پر ہمیں ہماری اصل منزل تک لے جانے والی ابدیت کی سواری ہے۔ موت ایک دروازہ ہے جو ہمیں ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل کرتا ہے، یہ فنا نہیں بلکہ بقا کا ایک رخ ہے۔

میری اس بات کا مقصد نہ تو مایوسی پھیلانا ہے، اور نہ ہی خوف زدہ کرنا۔ بلکہ یہ صرف ایک دعوتِ فکر ہے — ایک روشن بصیرت کی طرف بلانا۔ جس دنیا کے لیے ہم اتنی بھاگ دوڑ کر رہے ہیں، اپنا چین و سکون قربان کر رہے ہیں، کیا ہم نے اس دنیا کے بعد کی زندگی — جو اصل ہے، دائمی ہے، اور ابدی ہے — اس کے لیے بھی کچھ تیاری کی؟ کیا ہم نے اپنے اعمال ایسے بنائے ہیں جو آخرت میں ہمارے کام آ سکیں؟ یا ہم نے زندگی کی اصل غرض و غایت کو فراموش کر دیا ہے؟

مولانا روم کی حکایت اور اس سے حاصل ہونے والے اسباق

اس حکایت سے ہمیں کئی اہم اسباق ملتے ہیں

  غفلت سے بیداری: بکری کا یہ رویہ ہماری اس غفلت کی عکاسی کرتا ہے جس میں ہم دنیا کی فانی لذتوں اور عارضی مصروفیتوں میں گم رہتے ہیں۔ یہ حکایت ہمیں اس غفلت سے بیدار ہونے کا پیغام دیتی ہے کہ ہمارا وقت محدود ہے اور حتمی انجام قریب ہے۔

  حقیقت پسندی کی ضرورت: موت ایک اٹل حقیقت ہے جسے تسلیم کرنا ہی حقیقت پسندی ہے۔ اس حقیقت کو نظر انداز کرنا یا اس سے آنکھیں چرانا محض ایک خوش فہمی ہے۔ اسباق یہ ہے کہ ہمیں زندگی کی عارضی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا چاہیے۔

 ترجیحات کا تعین: جب انسان کو یہ ادراک ہو جائے کہ موت ہر لمحہ اس کے قریب ہے تو اس کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ وہ فانی چیزوں کے بجائے باقی رہنے والی چیزوں پر توجہ دیتا ہے۔ یہ حکایت ہمیں اپنے وقت، توانائی اور وسائل کو دائمی فائدے کے لیے استعمال کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔

  تیاری کا لزوم: جس طرح سفر پر جانے سے پہلے تیاری کی جاتی ہے، اسی طرح آخرت کے سفر کے لیے بھی تیاری ضروری ہے۔ یہ تیاری نیک اعمال، اللہ کی رضا کے حصول، حقوق العباد کی ادائیگی، اور روحانی ترقی کی صورت میں ہوتی ہے۔

  خوف کے بجائے ہوش: موت سے خوفزدہ ہونے کے بجائے، ہمیں ہوشمندانہ انداز میں اس کی تیاری کرنی چاہیے۔ یہ ہمیں بے فکر ہونے کے بجائے اپنے فرائض کی ادائیگی اور اپنی آخرت کو بہتر بنانے کی طرف راغب کرتی ہے۔

اللہ کریم ہمیں دنیا کے فریب سے محفوظ رکھے، ہمیں وہ بصیرت عطا فرمائے جس سے ہم عارضی کو عارضی اور دائمی کو دائمی پہچان سکیں۔ آمین۔ ہمیں اپنے اعمال کو اس طرح بہتر بنانے کی توفیق دے کہ ہم جب بھی اس ابدی سفر پر روانہ ہوں، ہمارے پاس کامیابی کا سامان موجود ہو۔ کیا آپ بھی اس ابدی سفر کی تیاری کے بارے میں مزید غور کرنا چاہیں گے؟


فحاشی مردوں کے خلاف ایک خاموش جنگ ہے

سورة الممتحنة

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *