دانائی یا خاموشی؟

دانائی یا خاموشی؟ دانائی یا خاموشی؟

دانائی یا خاموشی؟

یہ ایک سبق آموز اور حیرت انگیز کہانی ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ بعض اوقات خاموشی ہی سب سے بڑی دانائی ہوتی ہے۔ تین مختلف کردار

—زندگی اور موت کے نازک لمحے میں ایسی سچائی سے گزرتے ہیں جو انسانی فطرت، منطق، اور قسمت کے گہرے تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ کب سچ بولنا فائدہ مند ہے اور کب خاموش رہنا زندگی بچا سکتا ہے۔

یہ کہانی تین مختلفیف کرداروں کے ذریعے، جن میں ایک عالم، ایک وکیل اور ایک فلسفی شامل ہیں، اس بات کی گہرائی سے وضاحت کرتی ہے کہ کب بات کرنا دانائی ہے اور کب خاموش رہنا۔

 

سزائے موت کا منظر: قسمت کا کھیل

یہ کہانی ایک ایسے بادشاہ کے دربار سے شروع ہوتی ہے جس نے کسی نامعلوم وجہ سے تین بے گناہ افراد کو سزائے موت سنا دی تھی۔ یہ افراد کوئی عام لوگ نہیں تھے بلکہ معاشرے کے منتخب افراد تھے: ایک ایسا عالم جو علمِ دین اور دنیاوی علوم میں گہری بصیرت رکھتا تھا، ایک وکیل جو حق اور انصاف کے لیے اپنی آواز بلند کرنے کا ماہر تھا، اور ایک فلسفی جو کائنات کے اسرار و رموز پر غور و فکر کرتا تھا۔ ان تینوں کو پھانسی گھاٹ پر لے جایا گیا، جہاں موت کا ایک ڈراونا منظر ان کا منتظر تھا۔

پھانسی گھاٹ پر ایک بلند لکڑی کا تختہ تھا، جس کے ساتھ پتھروں سے بنا ایک مینار کھڑا تھا۔ مینار کی چوٹی پر ایک بہت بڑا اور بھاری پتھر ایک مضبوط رسی کے ذریعے چرخی سے بندھا ہوا لٹک رہا تھا۔ اس کا طریقہ کار کچھ یوں تھا کہ جب رسی کو ایک طرف سے کھینچ کر چھوڑا جاتا تو دوسری طرف سے بندھا ہوا پتھر پوری قوت سے نیچے گرتا اور راستے میں آنے والی ہر چیز کو کچل دیتا۔ یہ ایک ایسی موت تھی جو نہ صرف جسم کو فنا کرتی بلکہ روح پر بھی لرزہ طاری کر دیتی۔ یہ منظر ہی اتنا خوفناک تھا کہ کسی کی بھی ہمت جواب دے جاتی۔

عالم کا یقین اور معجزانہ نجات

سب سے پہلے عالم کو اس موت کے تختے پر عین پتھر گرنے کی جگہ لٹایا گیا۔ اس لمحے، جب موت سر پر منڈلا رہی تھی، اس سے اس کی آخری خواہش پوچھی گئی۔ عالم نے، جو اپنی زندگی خدا کے احکامات اور اس کے علم کی روشنی میں بسر کرتا تھا، انتہائی پرسکون اور مضبوط لہجے میں جواب دیا: “میرا خدا پر پختہ یقین ہے۔ وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ مجھے اس کے سوا کچھ نہیں کہنا۔” اس کے الفاظ میں ایک ایسی گہرائی اور ایمان کی ایسی پختگی تھی جو وہاں موجود ہر شخص کو متاثر کر گئی۔ اس نے اپنی زندگی خدا کے حوالے کر دی، بغیر کسی خوف یا پشیمانی کے۔

جیسے ہی رسی کھولی گئی، پتھر پوری طاقت سے نیچے آیا۔ وہاں موجود ہر شخص نے اپنی سانسیں تھام لیں۔ لیکن، اچانک، پتھر عالم کے سر کے بالکل اوپر آکر رک گیا۔ یہ ایک ایسا معجزہ تھا جس کی کسی نے توقع نہیں کی تھی۔ وہاں موجود تمام لوگ، جن میں پھانسی دینے والے بھی شامل تھے، حیران و دنگ رہ گئے۔ انہوں نے عالم کے پختہ یقین کو اس کی نجات کا سبب سمجھا۔ یہ ایک ایسا لمحہ تھا جب ہر کسی نے خدا کی قدرت اور عالم کے ایمان کی سچائی کو تسلیم کیا۔ رسی کو واپس کھینچ لیا گیا، اور عالم کی جان بچ گئی۔ اس واقعے نے یہ پیغام دیا کہ بعض اوقات غیر متزلزل ایمان اور تقدیر پر یقین سب سے بڑی ڈھال ثابت ہوتا ہے۔

وکیل کا انصاف اور غیر متوقع بچت

عالم کی نجات کے بعد، اب وکیل کی باری آئی۔ اسے بھی تختہ دار پر لٹا کر آخری خواہش پوچھی گئی۔ وکیل، جو اپنی پوری زندگی حق اور سچ کی وکالت کرتا رہا تھا، پرعزم لہجے میں کہا: “میں حق اور سچ کا وکیل ہوں، اور جیت ہمیشہ انصاف کی ہوتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہاں بھی انصاف ہو گا۔” اس کے الفاظ میں اس کے پیشے کی روح اور عدل پر اس کا پختہ یقین جھلک رہا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو خدا کے انصاف کے سپرد کر دیا، اس یقین کے ساتھ کہ حق کا بول بالا ہو کر رہے گا۔

دوبارہ رسی کھولی گئی اور پتھر حسبِ سابق پوری قوت سے نیچے آیا۔ سب کی نظریں اس پتھر پر تھیں، ہر کوئی اس بات کا منتظر تھا کہ کیا عالم کی طرح وکیل بھی بچ پائے گا۔ اور پھر وہی ہوا جو عالم کے ساتھ ہوا تھا! پتھر اس بار بھی وکیل کے سر پر پہنچ کر رک گیا۔ یہ انصاف دیکھ کر پھانسی دینے والے بھی دنگ رہ گئے اور وکیل کی جان بھی بچ گئی۔ اس واقعے نے اس بات پر مزید مہر ثبت کر دی کہ شاید کوئی غیبی طاقت ان بے گناہ افراد کو بچا رہی تھی، یا پھر یہ ان کے پختہ عقائد کا کمال تھا۔ وکیل کے بچنے سے یہ تاثر مزید گہرا ہو گیا کہ حق اور انصاف کا دامن کبھی خالی نہیں رہتا۔

—ایک عالم، ایک وکیل، اور ایک فلسفی
—ایک عالم، ایک وکیل، اور ایک فلسفی

فلسفی کی دانائی اور اس کا المناک انجام

آخر میں فلسفی کی باری آئی۔ عالم اور وکیل کی نجات کے بعد، سب کی نظریں فلسفی پر تھیں، اور ہر کوئی یہ توقع کر رہا تھا کہ اسے بھی نجات مل جائے گی۔ جب اسے تختے پر لٹایا گیا اور آخری خواہش کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے ایک غیر متوقع اور چونکا دینے والی بات کہی: “نہ تو عالم کو خدا نے بچایا ہے اور نہ ہی وکیل کو اس کے انصاف نے۔ دراصل، میں نے غور سے دیکھا ہے کہ رسے پر ایک جگہ پر ایک گانٹھ پڑی ہوئی ہے جو چرخی کے اوپر گھومنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔ اسی وجہ سے رسی پوری نہیں کھلتی اور پتھر مکمل طور پر نیچے نہیں گرتا۔”

فلسفی، جو اپنی زندگی کے ہر لمحے حقیقت کی تلاش میں رہتا تھا اور ہر چیز کا منطقی تجزیہ کرتا تھا، اپنی گہری مشاہداتی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ اس نے اس راز کو فاش کر دیا جس نے پہلے دو افراد کو بچایا تھا۔ اس کی بات سن کر سب نے رسے کا بغور معائنہ کیا تو واقعی وہاں ایک گانٹھ موجود تھی۔ یہ ایک سادہ سی حقیقت تھی جسے کسی نے نوٹ نہیں کیا تھا، یا شاید نظر انداز کر دیا تھا۔

انہوں نے جب وہ گانٹھ کھول کر رسے کو آزاد کیا تو پتھر پوری قوت سے نیچے گرا اور فلسفی کا ذہین سر کچل کر رکھ دیا۔ ایک لمحے میں، اس کا علم اور اس کی ذہانت، جو اس کی سب سے بڑی طاقت تھی، اس کی موت کا سبب بن گئی۔ فلسفی نے حقیقت کو جان لیا تھا، لیکن اسے ظاہر کرنا اس کے لیے مہلک ثابت ہوا۔

کہانی کا حقیقی پیغام: خاموشی میں مضمر دانائی

یہ کہانی ہمیں ایک بہت اہم اور گہرا سبق دیتی ہے: کبھی کبھی، بہت زیادہ علم اور سچ جاننے کے باوجود، خاموش رہنا ہی سب سے بڑی دانائی ہوتا ہے۔ فلسفی نے اپنی ذہانت اور مشاہدے کی طاقت سے مسئلہ کی اصل وجہ کو پہچان لیا، لیکن اس نے اپنے اس علم کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کے بجائے اسے فاش کر دیا۔ عالم اور وکیل نے غیر ارادی طور پر قسمت کا ساتھ دیا، کیونکہ وہ اس تکنیکی خرابی سے لاعلم تھے اور ان کا ایمان یا یقین ہی ان کی نجات کا باعث بنا۔

فلسفی کا انجام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہر سچ ہر وقت بولنے کے قابل نہیں ہوتا۔ بعض اوقات، کسی حقیقت کو جاننا ایک نعمت ہوتی ہے، لیکن اسے سب کے سامنے لانا ایک آفت بن سکتا ہے۔ یہ کہانی ہمیں دانائی کی حقیقی تعریف پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ کیا دانائی صرف سچ کو جاننا ہے، یا سچ کو اس وقت بولنا ہے جب اس کی ضرورت ہو اور اس کے نتائج آپ کے حق میں ہوں؟

یہ کہانی اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ خاموشی، محض الفاظ کی عدم موجودگی نہیں، بلکہ ایک سوچا سمجھا فیصلہ ہے۔ ایسے حالات ہوتے ہیں جہاں آپ کے الفاظ، چاہے وہ کتنے ہی سچے کیوں نہ ہوں، آپ کے اپنے خلاف ہو سکتے ہیں۔ فلسفی کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ چپ رہتا اور اپنی جان بچا لیتا، جس طرح عالم اور وکیل نے اپنی خاموشی (حقیقت سے لاعلمی) کے ذریعے خود کو بچایا تھا۔ لیکن اس نے اپنے علم کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے حقیقت کو فاش کر دیا، جس کی قیمت اسے اپنی جان دے کر چکانی پڑی۔

علاوہ ازیں، یہ کہانی ہمیں یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ زندگی میں سب کچھ منطق اور دلیل سے نہیں چلتا۔ بعض اوقات، قسمت، یقین، اور یہاں تک کہ اتفاقات بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ عالم اور وکیل کے معاملے میں، ان کے بچنے کی وجہ ان کا ایمان یا انصاف پر یقین نہیں تھا، بلکہ ایک چھوٹی سی تکنیکی خرابی تھی۔ لیکن اس خرابی کو ان کے ایمان اور یقین سے جوڑ دیا گیا، جس سے ایک مثبت نتیجہ برآمد ہوا۔ فلسفی نے اس “مفروضے” کو توڑ کر سائنسی حقیقت کو سامنے لا کر اپنی قسمت خود بدل دی۔

اختتامی خیالات

بالآخر، یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ دانائی صرف علم حاصل کرنے کا نام نہیں، بلکہ اس علم کو صحیح وقت پر، صحیح طریقے سے، اور صحیح مقصد کے لیے استعمال کرنے کا نام ہے۔ بعض اوقات، سب سے بڑی حکمت خاموشی میں ہوتی ہے، خاص کر جب آپ کا علم آپ کے لیے خطرہ بن جائے۔ زندگی میں بہت سی ایسی حقیقتیں ہوتی ہیں جن کا انکشاف آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس لیے، جب بھی آپ کچھ کہنے کا ارادہ کریں، اس کے ممکنہ نتائج پر ضرور غور کریں اور یہ سوچیں کہ آیا آپ کے الفاظ آپ کے فائدے میں ہیں یا نقصان میں۔ کیونکہ کبھی کبھی، ایک چھوٹا سا گانٹھ، جو زندگی بچانے کا باعث بن سکتا ہے، اس وقت مہلک بن جاتا ہے جب اسے فاش کر دیا جائے۔


تخلیق ارض و سما

أحاديث في بر الوالدين

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *