فرعون کی بیوی(حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہا)ایمان لانے کا افروز اوقعہ

 فرعون کی بیوی(حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہا)ایمان لانے کا افروز اوقعہ  فرعون کی بیوی(حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہا)ایمان لانے کا افروز اوقعہ

فرعون کی بیوی(حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہا)ایمان لانے کا افروز اوقعہ

 فرعون کی بیوی(حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہا)ایمان لانے کا افروز اوقعہ

  پیارے دوستو فرعون کی بیوی جن کا نام حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہ تھا یہ بادشاہ مصر ریان بن ولید کی اولاد میں سے تھی۔ اور یہ ریان بن ولید وہی بادشاہ تھا جو حضرت یوسف علیہ السلام کے دور میں باشاہ مصر تھا ۔اور یہ خوش نصیب بادشاہ حضرت یوسف علیہ السلام پر ایمان لے آیا تھا۔۔ فرعون کی بیوی حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہا انتہائی حسین و جمیل خاتون تھی ،کیونکہ یہ خاتون بادشاہ کی اولاد میں سے تھی اسی وجہ سے اس کے پاس مال و دولت کی کوئی کمی نہیں تھی ۔اسی وجہ سے ہر وقت خدام ان کے آگے پیچھے رہا کرتے تھے۔ یہ پاک دامن خاتون فرعون کو ناپسند کرتی تھی لیکن فرعون چونکہ اس وقت مصر کا بادشاہ تھا اسی وجہ سے فرعون نے اس خوبصورت عورت کی خوبصورتی کو دیکھ کر زبردستی اس سے نکاح کر لیا ۔جب کہ حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہا اور ان کے والدین اس نکاح سے خوش نہیں تھے ،لیکن انہوں نے حالات کی مجبوری کی وجہ سے حضرت  آسیہ رضی اللہ تعالی عنہا   کا نکاح فرعون سے کر دیا تھا ۔۔۔۔۔پیارے دوستو فرعون کو حکومت و سلطنت اور مال و دولت کی کثرت اور طاقت کے نشے نے حد سے زیادہ مغرور اور بے لگام بنا دیا تھا ۔اس طرح اس بدبخت کافر نے ہزاروں بنی اسرائیل کے لوگوں کو اپنا غلام بنا کے رکھا ہوا تھا۔   ان پر طرح طرح کے ظلم کرتا تھا ۔چونکہ اس بدبخت نے خدائی کا دعوی کر رکھا تھا۔ اسی لیے وہ تمام انسانوں کو اپنا غلام تصور کرتا تھا۔ اور ان معصوم لوگوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرتا تھا ۔چنانچہ وقت یوں ہی تیز رفتاری کے ساتھ چلتا رہا سال مہینوں میں اور مہینے ہفتوں میں اور ہفتے دنوں میں تبدیل ہو کر گزرتے چلے گئے ۔۔اور پھر وہ وقت بھی آگیا کہ اللہ تبارک و تعالی کے پیارے نبی حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام اس دنیا کے اندر تشریف لائے اور مصر کی سرزمین لا الہ الا اللہ کی صداؤں سے گونج اٹھی۔ اللہ تبارک و تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کو فرعون کی طرف اور ان کی قوم کی طرف دعوت حق دینے کے لیے اور ہدایت کی طرف بلانے کے لیے مبعوث فرمایا تھا۔ اللہ تبارک و تعالی کے ان پیغمبروں نے بنی اسرائیل کے لوگوں کو اللہ تبارک و تعالی کی وحدانیت کی طرف بلایا اور لوگوں کو باطل معبودوں کی پوجا کرنے سے منع کیا ،حضرت موسی علیہ السلام نے فرعون کو طرح طرح کے معجزات دکھائے ،لیکن اس کے باوجود بھی یہ لوگ کفر اور سرکشی پر اڑے رہے ۔اور اللہ تبارک و تعالی کی وحدانیت کا مسلسل انکار کرتے رہے ۔اس کے باوجود بھی حضرت موسی علیہ السلام فرعون کو اور بنی اسرائیل کے بدبخت لوگوں کو دعوت حق دیتے رہے جب فرعون حضرت موسی علیہ السلام کی اس تبلیغ سے تنگ آگیا ۔تو فرعون نے یہ خیال کیا کہ کیوں نہ موسی علیہ السلام کو لوگوں کے سامنے جھوٹا ثابت کیا جائے ۔۔چنانچہ فرعون نے حضرت موسی علیہ السلام کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے ایک خاص دن مقرر کیا، جس دن مصر کے اندر بہت بڑا میلہ لگتا تھا اور جس میلے کے اندر کثیر تعداد میں لوگ جمع ہوتے تھے۔۔ چنانچہ فرعون نے مصر کے تمام بڑے بڑے جادوگروں کو بلایا اور حضرت موسی علیہ السلام کو جھوٹا ثابت کرنے کا کہا ۔۔۔چنانچہ جب وہ میلے کا دن آیا تو ایک وسیع و عریض میدان سجایا گیا ۔اور ادھر فرعون اپنی فرعونیت کے نشے میں  مخمور ہو کر اپنے علی شاہ تخت پر جا بیٹھا ،اور سلطنت کے کونے کونے سے بلائے گئے بڑے بڑے جادوگر بھی جمع ہو چکے تھے ۔اور اس طرح ہزاروں افراد کا مجمع بھی جمع ہو چکا تھا ،اور یہ حق اور باطل کا عظیم ترین معرکہ تھا ۔جس کو دیکھنے کے لیے بے شمار لوگ جمع ہوئے تھے ۔اور ادھر اللہ تبارک و تعالی کے سچے نبی حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام بھی تشریف لا چکے تھے  ۔حضرت موسی علیہ السلام کے چہرہ انور پر جاہ و جلال نظر آرہا تھا چنانچہ اس عظیم  معرکہ کا آغاز ہوا ۔اور جادوگروں نے فرعون کی عزت کی قسم کھا کر اپنے جادو کی لاٹھیاں اور رسیاں پھینکنی شروع کر دیں تو وہ لاٹھیاں اور رسیاں ایک دم سے سانپ بن کر پورے میدان کے اندر دوڑنے لگی ۔ان سانپوں کو دیکھ کر پورے مجمعے کے اندر خوف   پھیل گیا ۔اور تمام لوگ بدحواس ہو کر ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ ادھر فرعون اور اس کے جادوگر اپنے نشے میں بدمست ہو کر تالیاں بجانے لگے ،اور اس منظر کو دیکھ کر خوش ہونے لگے اور ادھر اللہ تبارک و تعالی نے اپنے پیارے پیغمبر حضرت موسی علیہ السلام کو اپنا عصا مبارک پھینکنے کا حکم دیا۔ تو اس وقت حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ تبارک و تعالی کے حکم کی تکمیل کرتے ہوئے اپنے عصا مبارک کو ان سانپوں کے ہجوم میں ڈال دیا ۔۔۔چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے حضرت موسی علیہ السلام کا وہ عصا ایک خوفناک اور ہیبت ناک ازدہا بن کر نمودار ہوا ۔جس نے جادوگروں کے تمام چھوٹے چھوٹے سانپوں کو نگل لیا، حق اور باطل کا یہ عظیم الشان معجزہ دے کر جادوگروں کے دلوں میں ایمان کا نور چمک اٹھا ،اور تمام جادوگر اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں سجدے میں گر گئے۔ اور تمام جادوگروں نے اللہ تبارک و تعالی کی وحدانیت کی تصدیق کی اور اللہ تبارک و تعالی کی سچی ذات پر ایمان لے آئے۔۔۔ چنانچہ جب حضرت موسی علیہ السلام کے اس عظیم الشان معجزے اور جادوگروں کے ایمان لانے کی خبر، حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہا کو پہنچے تو اس وقت حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہ کے دل میں بھی فورا حق کا نور چمک اٹھا، اور اس طرح حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہ اللہ تبارک و تعالی کی وحدانیت پر ایمان لے آئی۔ لیکن ان کا ایمان لانا اتنا آسان نہ تھا ۔کیونکہ وہ ایک جابر اور ظالم اور خدائی کے دعوی دار بدبخت حکمران کی بیوی تھی ۔اور حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہ کے دل میں یہ بھی ڈر تھا کہ اگر فرعون کو میرے ایمان کا پتہ چل گیا تو وہ ظالم بادشاہ مجھ پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈائے گا اور اپنے ظلم کی تمام حد پار کر دے گا لیکن اس کے باوجود بھی حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اپنا سب کچھ اللہ تبارک و تعالی کی ذات پر چھوڑ دیا ۔اور اللہ تبارک و تعالی کی وحدانیت پر ایمان لے آئی۔ ابتدا میں حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے ایمان کو کسی پر ظاہر نہ کیا کچھ عرصہ یوں ہی گزرتا رہا ،اور پھر ایک دن ایسا عجیب و غریب واقعہ پیش آیا جس واقعے کے بعد حضرت آ سیہ رضی اللہ تعالی عنہ کے دل میں فرعون کے لیے مزید غضب کی آگ بھڑک اٹھی۔۔ اور حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہ فرعون سے مزید نفرت کرنے لگی ،اور فرعون کے مسلمانوں پر کیے جانے والے ظلم و ستم حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے ناقابل برداشت تھے ۔۔چنانچہ وہ عبرت ناگ واقعہ کچھ یوں پیش آیا کہ فرعون کی بیٹی کی ایک خادمہ تھی ،جو فرعون کی بیٹی کے سر میں کنگھی کیا کرتے تھے ۔ایک دن اس خادمہ کے ہاتھ سے کنگی گر گئی تو اس خادمہ نے بسم اللہ پڑھ کر اس کنگھی کو اٹھا لیا ۔اس وقت فرعون کی بیٹی نے ان  کلمات کو سن لیا اور فرعون سے جا کر اس خادمہ کی شکایت کر دی،، کہ وہ خادمہ آپ کے علاوہ کسی اور کو خدا مانتی ہے۔ اور آپ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرتی ہے۔ یہ بات سن کر فرعون لال پیلا ہو گیا اور اس نے غضب ناک ہو کر اس خادمہ کو اپنے دربار میں بلایا ،اور اس خادمہ کے ایمان لانے کی حقیقت دریافت کی ۔ وہ کس کو خدا مانتی ہے ۔اور فرعون اسے کہنے لگا کیا تو میرے علاوہ کسی اور کو خدا مانتی ہے؟ تو اس وقت اس خادمہ نے فورا جواب دیا کہ ہاں ،میرا اور تیرا رب اللہ عزوجل ہے۔ وہی وحدہ لا شریک ہے ۔اور اس کے علاوہ اس کا کوئی شریک نہیں۔۔۔ چنانچہ خادمہ کی یہ بات سن کر فرعون اس پر مزید غضب ناک ہو گیا ۔۔چنانچہ فرعون نے اس خادمہ کو اور ان کے معصوم بچوں کو کھولتے ہوئے تیل میں ڈال دیا ۔اور ان کو شہید کر دیا ۔یہ خوفناک اور دل خراش منظر اس وقت فرعون کی بیوی بھی دیکھ رہی تھی ۔اسی دوران اللہ تبارک و تعالی کی قدرت کی جلوہ گری ہوئی، اور اللہ تبارک و تعالی نے حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہ کی انکھوں سے غیب کے پردے اٹھا دیے تھے ۔اور فرعون کی بیوی کی بصیرت کو روشن فرما دیا تھا ۔اور فرعون کی بیوی نے یہ منظر بھی دیکھا کہ فرشتے اس خادمہ کی روح کو لے کر آسمان کی طرف جا رہے۔  اس  طرح فرشتوں کو دیکھنے کے بعد فرعون کی بیوی کا ایمان مزید مضبوط ہو گیا۔ اور وہ مزید اللہ تبارک و تعالی کی وحدانیت کا یقین کرنے لگی۔ اور حضرت موسی علیہ السلام کی صداقت اور حقانیت بھی واضح ہو گئی اس خوفناک منظر کو دیکھنے کے بعد فرعون کی بیوی سوچ میں پڑ گئی اور سوچنے لگی کہ میں مسلمان ہونے کے باوجود بھی مسلمانوں پر ہونے والے ان تمام تر ظلم و ستم کو کس طرح برداشت کر سکتی ہوں۔ ابھی فرعون کی بیوی انہی خیالات کے اندر گم تھی کہ فرعون اپنی بیوی کے پاس آیا ،اور اس مظلوم عورت پر کیے جانے والے اپنے ظلم و ستم کی داستان کو اپنی بیوی کے ساتھ بیان کرنے لگا ۔۔اس وقت فرعون کی بیوی نے اپنے دل ہی دل میں فرعون کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرنے کا ارادہ کر لیا تھا ۔جب فرعون نے اپنی بیوی کو اس مظلوم عورت کو شہید کرنے کی خبر دی تو،، فرعون کی بیوی نے فرعون سے کہا ،،کہ اللہ تیری خرابی ہو کس شے نے تجھے اللہ تبارک و تعالی کے مقابلے میں اتنا بے باک کر دیا ہے۔ یہ بات سن کر فرعون ایک بار پھر بھڑک اٹھا ۔اور اپنی بیوی سے کہنے لگا کہ تجھے بھی اسی جنون نے آلیا ہے  ۔جس کے اندر وہ خادمہ مبتلا تھے ۔۔چنانچہ اس کے جواب میں فرعون کی بیوی نے فرعون سے کہا ،کہ مجھے کوئی جنون نہیں آیا میں تو اس خدا وحدہ لا شریک پر ایمان لا چکی ہوں۔ جو میرا اور تیرا اور تمام جہانوں کا سچا رب ہے اس طرح اس بہادر خاتون نے  کھلم کھلا فرعون کے سامنے اپنے ایمان کا اظہار کیا۔۔ فرعون اپنی بیوی کی یہ بات سن کر حیران و پریشان رہ گیا ،،اور فرعون شروع شروع میں بغیر کسی ظلم و ستم کے اپنی بیوی کو سمجھانے کی کوشش کرنے لگا ۔اور فرعون نے اپنی بیوی کو ایمان سے دور کرنے کے لیے ان کے والدین کو بھی بلایا ۔اور ان کو دھمکی دینے لگا ،کہ اگر تمہاری بیٹی نے حضرت موسی علیہ السلام کے خدا   پرایمان لائی تو موت کا مزہ چکھے گی ۔۔۔چنانچہ حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہ کے والدین نے تنہائی کے اندر حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہ کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن ،،حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہ کا ایمان چونکہ مضبوط ہو چکا تھا۔ اسی وجہ سے انہوں نے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا ۔اور حضرت  آسیہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے والدین سے کہنے لگی کہ، میں اللہ تبارک و تعالی کی وحدانیت کا انکار نہیں کر سکتی ۔بے شک وہ سچا رب ہے ۔فرعون کا یہ حربہ بھی ناکام ہو گیا ۔تو اس وقت فرعون نے اپنی بیوی کو طرح طرح کی اذیتیں دینے کا فیصلہ کیا ۔تاکہ یہ اپنے ایمان سے دور ہو جائے اور مجھ کو خدا ماننے لگے ۔۔۔پیارے دوستو روایات میں آتا ہے کہ فرعون کے حکم سے حضرت  آسیہ رضی اللہ تعالی عنہ کو طرح طرح کے  اذیتوں کے اندر مبتلا کر دیا گیا ۔حتی کہ حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھوں اور پاؤں میں میخیں لگا کر دھوپ  میں سورج کی طرف رخ کر کے لٹا دیا گیا ۔اور آپ کے سینے کے اوپر چکی کا   بہاری   پتھر رکھ دیا گیا ۔تاکہ آپ ہل نہ سکیں ،لیکن ان تمام تر تکالیف اور مصائب کے باوجود بھی حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ایمان کے اندر ذرہ برابر بھی کمی نہ آئی ۔۔بلکہ ان تمام تر تکالیف کے باوجود بھی آپ کے ایمان کے اندر مزید اضافہ ہوتا چلا گیا ۔۔چنانچہ جب فرعون نے ان تمام تر تکالیف کے بعد اپنی بیوی سے ایمان سے پھرنے کا کہا تو، حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بڑا ہی ایمان افروز اور ایمان کو تازہ کر دینے والا جواب دیا، جس سے فرعون کاغرور خاک میں مل گیا ۔اور فرعون حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ایمان اور ہمت کے آگے گھٹنے دیکھنے پر مجبور ہو گیا ۔۔چنانچہ حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا ۔اے دشمن خدا اور ظالم انسان تو ،،میرے وجود پر تو قادر ہو سکتا ہے لیکن میرا دل  اللہ تبارک و تعالی کی پناہ میں ہے۔ اگر تو میرے جسم کے ہر ہر حصے کو بھی کاٹ دے تب بھی میرا عشق اور ایمان اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں بڑھتا چلا جائے گا۔ اسی دوران جب حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہ پر ظلم و ستم کے پہاڑ گرائے جا رہے تھے ۔حضرت موسی علیہ السلام وہاں سے گزرے تو۔ حضرت موسی علیہ السلام سے حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا۔ کیا میرا رب مجھ سے راضی ہے ؟تو حضرت موسی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا اے آسیہ رضی اللہ تعالی عنہا آسمان کے فرشتے تیرے انتظار میں ہیں۔۔ اور اللہ تبارک و تعالی تیرے ایمان اور تیرے کارناموں پر فخر فرماتا ہے آپ اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں سوال کریں آپ کے ہر حاجت پوری کی جائے گی ۔اس وقت حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں یہ دردناک دعا کی،، اے میرے پروردگار میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا   اور مجھے فرعون اور اس کے ظلم سے نجات دے۔۔ اور مجھے ان ظالموں سے نجات بخش ۔ادھر جب فرعون نے حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہ کو ایمان سے دور کرنے کی تمام تر کوشش کر لی ۔اور ہر کوشش کے اندر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو  ،اس وقت فرعون نے حضرت  آسیہ رضی اللہ تعالی عنہ شہید کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔اور آخری حربے کے طور پر فرعون نے اپنے کارندوں سے کہا ،کہ ایک بہت  بڑی   چٹان لےآواگر اپنے ایمان پر قائم رہتی ہے تو یہ چٹان اس پر گرا دینا ۔اور اگر یہ ایمان سے پھر جاتی ہے تو پھر یہ میری بیوی ہے ۔۔۔۔پیارے دوستو اس خوفناک منظر کے وقت جہاں ایک طرف زندگی ہے اور دوسری طرف موت کھڑی ہے۔ تو اس وقت حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہ نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھی، تو جنت کے اندر اپنا سفید موتیوں والا محل نظر آیا جس سے آپ کا ایمان مزید بڑھ گیا۔ اور اسی حالت میں اپ کی روح پرواز کر جاتی ہے ۔اور اس کے بعد اپ رضی اللہ تعالی عنہ کے جسم مبارک پر وہ چٹان گرا دی جاتی ہے اور وہ چٹان ایسے بدن پر گرتی ہے ،،،جس میں روح نہیں ہوتی ۔اس دردناک واقعے کے دوران جب فرعون اپنی بیوی پر طرح طرح کے ظلم کر رہا تھا ا اللہ تبارک و تعالی نے اپنے فرشتوں کو۔ حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہ پر مقرر کر دیا تھا ۔اور وہ فرشتے حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہ پر سایہ کیے ہوئے تھے ۔اور ان کو جنت کے اندر اپنا مقام دکھا دیا تھا ۔جس کی وجہ سے حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہ کا ایمان مزید مضبوط ہو گیا اور فرعون کی تمام مصیبتوں کو اپ بھول گئی۔ اس طرح حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہ نے دنیا کی تمام تر تکالیف اور مصیبتوں کو برداشت کیا۔ لیکن اللہ تبارک و تعالی کی وحدانیت کو نہیں چھوڑا  ۔اور پھر اللہ تبارک و تعالی نے حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہ کو وہ مقام عطا فرمایا جو مقام آج تک کسی کو نہیں ملا ۔حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہ جب جنت میں جائیں گی تو،، اللہ تبارک و تعالی ان کو یہ نعمت عطا فرمائے گا کہ۔۔ وہ جنت میں حضور پاک صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی زوجہ محترمہ ہوں گی ۔اور اللہ تبارک و تعالی ان کا شمار حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی ازواج مطہرات میں فرمائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی ہمیشہ اپنا عشق اور ایمان سلامت رکھے اور حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی محبت کے اندر جینا مرنا نصیب فرمائے

=======================================

معراج , برکتوں  ,حکمتوں اور,  رحمتوں والی رات ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *