قرآن وہی ہے، دل بدل گئے
صحابہ قرآن پڑھ کر لرز جاتے تھے، لیکن وہی قرآن آج ہم پڑھتے ہیں اور نہیں لرزتے — آخر وجہ کیا ہے؟
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، وہی کلام جو پہاڑ پر نازل ہوتا تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتا
“لَوْ أَنزَلْنَا هَـٰذَا ٱلْقُرْءَانَ عَلَىٰ جَبَلٍۢ لَّرَأَيْتَهُۥ خَـٰشِعًۭا مُّتَصَدِّعًۭا مِّنْ خَشْيَةِ ٱللَّهِ ۚ”
(اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دب جاتا اور پھٹ جاتا۔)
(سورۃ الحشر: 21)
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
جب صحابہ کرامؓ قرآن سنتے تو اُن کے دل دہل جاتے، آنکھیں اشکبار ہو جاتیں، سانسیں رک جاتیں، بدن کانپنے لگتا — لیکن آج وہی قرآن ہم دن میں کئی بار سنتے اور پڑھتے ہیں، اور دل میں کوئی لرزش، کوئی اثر، کوئی تبدیلی محسوس نہیں ہوتی۔ آخر ایسا کیوں ہے؟
آیئے، اس سوال کا تجزیہ قرآن، حدیث اور تاریخ کی روشنی میں کرتے ہیں۔
صحابہ کرامؓ کا قرآن سے تعلق
صحابہ کرامؓ قرآن کو صرف ایک کتابِ تلاوت یا علمی مواد نہیں سمجھتے تھے، بلکہ
یہ اُن کے دلوں پر اترتا تھا۔
وہ اسے پیغامِ رب سمجھ کر پڑھتے تھے۔
ہر آیت کو اپنی ذات پر نافذ کرتے۔
قرآن سنتے تو جیسے وحی اُن پر اتر رہی ہو۔
حضرت عمر بن خطابؓ
حضرت عمرؓ نے جب سورۃ الطور کی آیات سنی
إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌۭ، مَّا لَهُۥ مِن دَافِعٍۢ…
(بے شک تیرے رب کا عذاب واقع ہو کر رہے گا، کوئی اسے روک نہیں سکتا)
تو وہ اتنا لرزے کہ کئی دن بیمار رہے۔
حضرت عثمانؓ
فرماتے تھے
“اگر ہمارے دل پاک ہوتے، تو ہم اللہ کے کلام سے سیر نہ ہوتے۔”
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ
فرماتے
“جب تم قرآن سنو، تو سننے والے بنو، شور مچانے والے نہیں۔ دل سے سنو، کیونکہ یہ اللہ تم سے مخاطب ہو رہا ہے!”
آج ہم کیوں نہیں لرزتے؟ – وجوہات کا تجزیہ
(الف) دل کی سختی (قسوت القلب)
قرآن خود فرماتا ہے
“ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّنۢ بَعْدِ ذَٰلِكَ فَهِىَ كَٱلْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً ۚ”
(پھر تمہارے دل سخت ہو گئے، وہ پتھروں جیسے یا اس سے بھی زیادہ سخت)
(سورۃ البقرہ: 74)
آج ہمارا دل دنیا کی محبت، گناہوں کی کثرت، اور ذکرِ الٰہی سے غفلت کے سبب سخت ہو چکا ہے۔ دل جب سخت ہو جائے تو قرآن کا نور اس میں جذب نہیں ہوتا۔
(ب) تلاوت فقط رسم بن گئی
ہم قرآن کو صرف رمضان میں یا کسی تقریب میں پڑھتے ہیں۔ اس کی تلاوت کو ثواب کی مشین سمجھ لیا ہے، فہم، تدبر، خشیت، اور اطاعت کو بھول گئے ہیں۔ جبکہ قرآن خود کہتا ہے
“أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ…”
(کیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے؟)
(سورۃ النساء: 82)

(ج) دنیا کی غفلت اور دل کی آلائشیں
حضرت علیؓ نے فرمایا
“دل بھی برتن کی طرح ہوتے ہیں، جب گناہوں سے بھر جاتے ہیں تو نورِ قرآن قبول نہیں کرتے۔”
آج دل مال و دولت، شہوت، موبائل، سوشل میڈیا، غیبت، حسد، غفلت، اور حب دنیا سے بھر چکے ہیں۔
قرآن سے تعلق علمی ہے، روحانی نہیں
ہم نے قرآن کو محض “علمی” کتاب سمجھ لیا ہے — پڑھنا، ترجمہ سیکھنا، تجوید کرنا — لیکن اس سے روحانی تعلق، اللہ سے محبت، خوف، رونا، طلبِ مغفرت، ترکِ گناہ کا جذبہ ختم ہو گیا ہے۔
قرآن کو سننے یا پڑھنے کے وقت صحابہؓ کا انداز
صحابہ قرآن پڑھتے تو
پہلے وضو کرتے،
دل کو خالی کرتے،
سوچتے کہ یہ کلام مجھے اللہ فرما رہا ہے،
ہر آیت پر رکتے، غور کرتے،
روتے، سجدہ کرتے،
اگر وعدہ کی آیت ہوتی تو جنت مانگتے،
اگر عذاب کی آیت ہوتی تو استغفار کرتے۔
آج کے دور کا روحانی زوال
قرآن موبائل میں ہے، لیکن دل میں نہیں۔
ہم تلاوت کرتے ہیں، لیکن تبدیلی نہیں آتی۔
ہم قرآن کی محافل میں بیٹھتے ہیں، لیکن اعمال میں انقلاب نہیں آتا۔
یہی وہ خلا ہے جو “لرزنے” کو ختم کر دیتا ہے۔
قرآن سے دوبارہ “لرزنے” کا نسخہ
✅ خالص نیت
قرآن صرف اللہ کی رضا کے لیے پڑھیں، نہ کہ رواج، رسم یا دنیاوی فائدے کے لیے۔
✅ دل کو صاف کریں
گناہوں سے توبہ کریں، حسد، کینہ، فحاشی اور دنیا پرستی کو دل سے نکالیں۔
✅ غور و تدبر
قرآن کو ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھیں، ہر آیت پر رکیں، اپنے آپ سے سوال کریں
“کیا یہ مجھ سے ہے؟ کیا میں اس آیت پر عمل کر رہا ہوں؟”
✅ صحابہ کے نقشِ قدم پر چلیں
جیسے وہ ہر آیت کو خود پر لاگو کرتے، ہم بھی کریں۔
✅ تنہائی میں قرآن
رات کے وقت یا خلوت میں قرآن پڑھنا، رونا، اللہ سے بات کرنا، دل پر اثر کرتا ہے۔
علامہ اقبالؒ کی بات
“وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر،
اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر”
نتیجہ
قرآن وہی ہے، جس نے صحابہؓ کو گمراہی سے نکال کر دنیا کے امام بنا دیا۔ وہی قرآن ہمارے ہاتھ میں ہے، لیکن ہمارے دل خالی ہیں۔ اس لیے نہ ہم لرزتے ہیں، نہ بدلتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قرآن کو پھر سے دل کا مرکز بنائیں، اسے اللہ کا پیغام سمجھ کر پڑھیں، تدبر کریں، عمل کریں، اور دلوں کی سختی کو مٹا کر اس کلامِ الٰہی سے لرزنے والے بنیں۔
اختتامیہ دعا
“اے اللہ! ہمارے دلوں کو قرآن کے نور سے منور فرما، ہمیں صحابہؓ جیسا خوف، خشیت، اور عمل عطا فرما، اور ہمیں اپنے کلام سے ہدایت پانے والوں میں شامل فرما۔ آمین یا رب العالمین۔”