موت ایسی عجیب شے ہے

موت ایسی عجیب شے ہے موت ایسی عجیب شے ہے

موت ایسی عجیب شے ہے

موت ایسی عجیب شے ہے جو  زندگی کا سب سے زیادہ موکد و یقینی واقعہ ہے لیکن کس قدر حیرت کی بات ہے کہ انسان سب سے زیادہ بے یقین اسی کے بارے میں ہوتا ہے۔ ہر شخص کو ایسا لگتا ہے کہ اسکی موت ابھی بہت دور ہے۔ جب بھی وہ کسی جنازہ میں شریک ہوتا ہے یا کسی کی موت کی خبر سنتا ہے تو اس کے ذہن میں پہلا خیال یہی آتا ہے کہ موت صرف جانے والے کو ہی آنی تھی، میری موت میں تو ابھی بہت دن پڑے ہیں۔

میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ناگہانی موت کا تجربہ کیسا ہوتا ہوگا، یکایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں پیروں تلے زمین نکل جاتی ہوگی۔ انسان کو لگتا ہوگا کہ یہ میرے ساتھ کیا ہوگیا۔ پتہ نہیں کیا کیفیت ہوتی ہوگی جب غیب شہود ہوجاتا ہوگا۔ سوچ کر رونگٹے ضرور کھڑے ہوجاتے ہیں، لیکن اگلے ہی لمحے واپس سب کچھ نارمل ہوجاتا ہے۔ اور پھر یہی گمان گزرتا ہے کہ ابھی تو بہت زندگی پڑی ہے۔۔

وہ حضرات جن کی عمر میری عمر کے آس پاس ہے انہوں نے غور کیا ہوگا کہ  ان کی آنکھوں کے سامنے دیکھتے دیکھتے ایک ایک کرکے ایک پوری نسل اس دنیا سے رخصت ہوچکی ہے اور اسکی جگہ دوسری نسل نے لے لی ہے۔ پہلے ایک نسل دادا دادی نانا نانی اور ان کے ہم سن اشخاص پر مشتمل ہوتی ہے، اس کے بعد تایا تائی، خالہ خالو، ماموں ممانی وغیرہ کی نسل تھی اور پھر عمر میں قدرے بڑے کزنز کی ایک نسل تھی اور سب سے آخر میں ہم لوگ ہوا کرتے تھے۔

پھر دیکھتے ہی دیکھتے دادا دادی نانا نانی وغیرہ اللہ کو پیارے ہوتے گئے۔۔۔۔۔ چچا چچی، تایا تائی، بوڑھے ہوتے گیے اور پتہ بھی نہ چلا کہ کب یہ لوگ دادا دادی نانا نانی والی جنریشن میں داخل ہوگئے، بال تمام سفید ہوگئے، جسم لاغر ہوگئے اور پھر ایک ایک کرکے ان کا بھی دنیا سے جانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

جو بڑی عمر کے کزنز ہوتے تھے، وہ اب اس جگہ پر نظر آتے ہیں جس جگہ پر ہم اپنے بچپن میں چچا چچی تایا تائی وغیرہ کو دیکھتے ہیں اور ہم لوگ خود جانے کب بڑے ہوکر بڑے کزنز کی جگہ پر آگئے اور پھر ان کزنز کی اولادوں نے ہماری جگہ سنبھال لی۔ نسل در نسل ہم بھی اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ صحیح کہتے ہیں کہ

موت ایسی عجیب شے ہے
موت ایسی عجیب شے ہے

 جو جاکے نہ آئے وہ جوانی دیکھی اور جو آکر نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا۔

آس پاس نظر دوڑائیے اور دیکھئے کہ کتنے ہی آپ کے ہم سن لوگ اس دنیا سے چلے گئے جبکہ وہ بھی آپکی طرح یہی سمجھتے تھے کہ مرنا تو اسی کو تھا جس کو دفنا کر آئے ہیں۔ ہماری تو ابھی  بڑی زندگی پڑی ہے۔

موت تو وہ چیز ہے جس سے روئے زمین پر بعد از انبیاء سب سے متقی و باکردار شخصیات یعنی صحابہ تک خوف کھاتے تھے۔ سیدہ عائشہ ہوں یا سیدنا عمر یا سیدنا ابن عباس، اپنے مرض الموت میں سب سے اسی طور کے الفاظ ملتے ہیں کہ کاش میں جنا نہ گیا ہوتا، کاش میں چڑیا ہوتا، ہرن ہوتا وغیرہ وغیرہ کہ حساب کتاب کی سختی سے بچ جاتا ہے۔

جب وہ حضرات جن کو قرآن نے راشدون جیسے لقب سے نوازا ہے، جن کو قرآن کے ساتھ ساتھ زبان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف الفاظ میں جنت کی خوشخبری سنائی ہے، جب ایسے حضرات پر موت کی سختی اور اسکے بعد کا حساب کتاب رقت و خوف طاری کردیتا تھا تو پھر ہم جیسے لوگ تو کسی گنتی میں ہی نہیں آتے۔

موت تو آنی ہی ہے، وہ بھلا کیونکر رک سکتی ہے لیکن اس سے پہلے جسم کا اضمحلال و ٹوٹ پھوٹ کا عمل بھی  ہونا ہے جہاں آہستہ آہستہ جسم کے اعضاء کمزور پڑنا شروع ہوجائیں گے۔ کروٹ بدلنے سے لیکر پڑھنے لکھنے تک میں دقت و تکلیف ہونا شروع ہوجائے گی، دماغ چیزیں بھولنا شروع کردے گا، مزاج میں شدت آنے لگے گی اور بچوں کی طرح ضد شروع ہوجائے گی

اور اگر اس کے ساتھ کسی کو کوئی ایسی بیماری آپڑے جو اسکو بڑھاپے میں بستر پر لگادے تو ایسا سوچ کر ہی کپکی چڑھ جاتی ہے کہ انسان خود نہانے دھونے اور رفع حاجت کرنے تک کے قابل نہ رہے۔ کیا بے بسی ہوتی ہوگی۔

پتہ نہیں کیا لکھے جارہا ہوں، لیکن بس لکھے جارہا ہوں کہ تیزی سے گزرتی زبدگی خوف طاری کرنے لگی ہے، جسم میں آنے والے تغیرات الارم سے لگتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں چھوٹا تھا یعنی غالبا 12، 15 سال کا ہونگا تو میرے والد نے ایک دفعہ میری والدہ سے ہم بہن بھائیوں کی طرف اشارہ کرکے کہا تھا کہ اب بھلا ہماری کیا زندگی رہ گئی ہے۔

ہم نے تو اپنی زندگی گزار لی ہے، اب تو ان بچوں کی زندگی ہے، دنیا ان کے آگے دروازے واں کیے کھڑی ہے، ہمارے لیے تو بس یہ کواڑ بند ہونے کو ہے جو پہلے ہی کسی قدر بَھیڑا جاچکا ہے اور کسی بھی روز قضاء کی ہوا کے زور سے بند ہوجائے گا۔ آج جب اپنے بچوں کو دیکھتا ہوں تو والد کے کہے الفاظ کی بازگشت خود کی ذات کے لیے سنائی پڑتی ہے۔


 موت کے جبڑوں میں

سورة سبأ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *