توبہ کیسی ہو
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ایک مرتبہ سخت قحط پڑا ، لوگ پریشان اور بے حال ہو کر سید نا موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے : حضرت ! دعا فرمائیں کہ اللہ رب العزت باران رحمت نازل فرمادے، حضرت موسیٰ علیہ السلام دعا کے لیے ستر ہزار بنی اسرائیل کے ہمراہ جنگل میں نکل گئے اور بارش کی دعا فرمائی: ” الہی ! معصوم بچوں، نیک بوڑھوں اور بے زبان جانوروں کے طفیل ہم پر رحم فرما کر باران رحمت نازل فرما۔ ہر نبی مستجاب الدعوات ہوتا ہے،
اس اعتبار سے دعا کے بعد بجائے اُمید بندھنے کے آسمان پہلے سے زیادہ صاف اور آفتاب پہلے سے زیادہ گرم ہو گیا، تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بہت حیرت ہوئی ، پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر عرض کیا: یا اللہ ! اگر تیری بارگاہ میں میری وجاہت ختم ہوگئی ہے تو نبی آخر الزماں جناب محمد رسول اللہ صلہ اسلام کے واسطہ سے التجا کرتا ہوں کہ تو اپنی رحمت متوجه فرما کر بارش نازل فرما۔ اسی وقت وحی آئی
” اے موسیٰ! تمها را مرتبہ ہمارے یہاں بالکل نہیں گھٹا ، تم اب بھی ہمارے نزدیک مرتبے والے ہو، مگر بات یہ ہے کہ تمھاری قوم میں ایک ہمارا نا فرمان بندہ ہے، جو چالیس سال سے ہمیں ناراض کرتا رہا ہے، جب تک وہ موجود ہے ہم ہرگز ایک قطره بارش نہیں برسائیں گے، آپ اعلان کریں، تا کہ مجمع سے وہ نافرمان چلا جائے جس کے سبب بارش کی ہوئی ہے۔“ حکم پاکر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اعلان فرمایا،
تو وہ نافرمان بندہ اپنی جگہ کھڑا رہا، چاروں طرف نظر ڈالی ، جب اس کے علاوہ اور کوئی مجمع سے نکلتا نظر نہ آیا تو اُس نے سوچا کہ اگر باہر نکلتا ہوں تو سب کے سامنے رُسوائی ہوتی ہے، اور اگر نہیں نکلتا تو میرے گناہوں کے سبب بارش نہ ہونے سے سب کے لیے پریشانی ہوتی ہے، سوچ کر دل میں تو بہ کا فیصلہ کر لیا، پھر چہرے پر پردہ ڈالا اور غفار الذنوب، ستار العیوب سے معافی طلب کی: اے میرے رب کریم! یہ تیرا بندہ، سراپا گندہ، اپنے گناہوں پر نادم وشرمندہ اور طالب تو یہ ہے

إِلهِي وَسَيِّدِي عَصَيْتُكَ أَرْبَعِينَ سَنَةً وَأَمْهَلْتَنِي، وَقَدْ أَتَيْتُكَ طَائِعًا فَاقْبَلْنِي.
یا اللہ ! میں نے چالیس سال تک تیری نافرمانی کی مگر تو مہلت دیتا رہا ، اب تیری طرف توبہ کے ارادے سے متوجہ ہوا ہوں ، پس قبول فرما محروم نہ فرما، مایوس نہ فرما، بس پھر کیا تھا، روایت میں آتا ہے کہ ابھی تو دعا اور تو بہ ختم بھی نہیں ہوئی کہ آسمان سے موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بڑا تعجب ہوا ؟ عرض کیا : ” اے اللہ! ابھی تو وہ بندہ مجمع سے باہر نکالا بھی نہیں، پھر یہ بارش کیسے برسی ؟ ارشاد ہوا : ” موسیٰ !
اس نے توبہ کر لی اور میں نے صلح کرلی
تو موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا
یا اللہ کون ہے وہ
اللہ تعالی نے فرمایا
جب نافرمان تھا تو میں نےکسی کو نہیں بتایااور اس پر پردہ ڈالا
آج جب وہ توبہ کر چکا ہے
تو اسے رسوا کیسے کروں؟
یہ تو میرا اور اسکا معاملہ ہے ۔
(کتاب التوابین از ابن قدامہ المقدسی ، ص ۱۱۵)
اس واقعے سے حاصل ہونے والا سبق
گناہ انسان اور قوم کی مصیبت کا سبب بن سکتا ہے۔ کبھی کبھی ایک بندے کے گناہ کی وجہ سے پوری قوم عذاب یا مصیبت میں مبتلا ہوسکتی ہے۔
توبہ اللہ کی رحمت کو کھینچ لاتی ہے۔ جیسے ہی اس بندے نے دل سے توبہ کی، اللہ نے بارش نازل فرمائی۔
اللہ پردہ پوش ہے۔ اس نے اس گناہگار بندے کو سب کے سامنے رسوا نہیں کیا بلکہ اس کی توبہ قبول کرکے اس کی عزت بچا لی۔
سچی توبہ عذاب کو رحمت میں بدل دیتی ہے۔
توبہ کرنے والے کی فضیلت احادیث کی روشنی میں
حدیث قدسی
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: “اے میرے بندے! اگر تُو میرے پاس زمین کے برابر گناہ لے کر آئے گا لیکن میرے ساتھ شرک نہ کرے گا تو میں تجھے اتنی ہی مغفرت عطا کروں گا۔”
(ترمذی)
اللہ خوش ہوتا ہے
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا
“اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر اس سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا کوئی شخص بیابان میں اپنی کھوئی ہوئی اونٹنی کو پا لے۔”
(بخاری و مسلم)
توبہ گناہوں کو مٹا دیتی ہے
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
“توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے کبھی گناہ کیا ہی نہ ہو۔”
(ابن ماجہ)
اللہ کی رحمت کی وسعت
قرآن مجید میں ہے
“اے میرے بندوں! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، بے شک اللہ سب گناہ معاف کر دیتا ہے۔”
(سورہ الزمر: 53)
نتیجہ
یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ کبھی بھی گناہوں کی وجہ سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ کی رحمت ہر چیز پر غالب ہے۔ اگر انسان دل سے سچی توبہ کرے تو نہ صرف اس کے گناہ معاف ہوتے ہیں بلکہ اللہ اس کے ذریعے دوسروں پر بھی رحمت نازل فرماتا ہے۔