نماز سنت کے مطابق ہو
نماز کا طریقہ
نماز دین کا ستون ہے، اس کو ٹھیک ٹھیک سنت کے مطابق ادا کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ ہم لوگ بے فکری کے ساتھ نماز کے ارکان جس طرح سمجھ میں آتا ہے، ادا کرتے رہتے ہیں، اور اس بات کی فکر نہیں کرتے کہ وہ ارکان مسنون طریقے سے ادا ہوں، اس کی وجہ سے ہماری نمازیں سنت کے انوار و برکات سے محروم رہتی ہیں حالانکہ ان ارکان کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنے سے نہ وقت زیادہ خرچ ہوتا ہے نہ محنت زیادہ ہوتی ہے، بس ذرا سی توجہ کی بات ہے،
اگر ہم تھوڑی سی توجہ دے کر صحیح طریقہ سیکھ لیں اور اس کی عادت ڈال لیں تو جتنے وقت میں ہم آج نماز پڑھتے ہیں، اتنے ہی وقت میں وہ نماز سنت کے مطابق ادا ہو جائے گی، اور اس کا اجر و ثواب بھی اور انوار و برکات بھی آج سے کہیں زیادہ ہوں گے۔
نمازمیں صحابہ عمل
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو نماز کا ایک ایک عمل خوب توجہ کے ساتھ سنت کے مطابق انجام دینے کا بڑا اہتمام تھا اور وہ ایک دوسرے سے سنتیں سیکھتے بھی رہتے تھے۔ اسی ضرورت کے پیش نظر نماز کا مسنون طریقہ اور اس سلسلے میں جو غلطیاں رواج پاگئی ہیں، ان کی تفصیل بیان کی جا رہی ہیں, انشاء اللہ اس کو پڑھ کر عمل کرنے سے بہت فائدہ ہوگا، اللہ تعالیٰ اس کو ہم سب کے لئے مفید بنائیں اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔ آمین،
یہاں نماز کے تمام مسائل بیان کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ صرف نماز کے ارکان کی ہئیت سنت کے مطابق بنانے کے لئے چند ضروری باتیں بیان کرنی ہیں، اور ان غلطیوں اور کوتاہیوں پر تنبیہ کرنی ہے جو آج کل بہت زیادہ رواج پاگئی ہیں۔ ان چند مختصر باتوں پر عمل کرنے سے انشاء اللہ نماز کی کم از کم ظاہری صورت سنت کے مطابق ہو جائے گی،
نماز شروع کرنے سے پہلے
آپ کا رخ قبلے کی طرف ہو نا ضروری ہے
آپ کو سیدھا کھڑے ہونا چاہئے اور آپ کی نظر سجدے کی جگہ پر ہونی چاہئے۔ گردن کو جھکا کر ٹھوڑی سینے سے لگا لینا بھی مکروہ ہے اور بلا وجہ سینے کو جھکا کر کھڑا ہونا بھی درست نہیں، اس طرح سیدھے کھڑے ہوں کہ نظر سجدے کی جگہ پر رہے ۔
آپ کے پاؤں کی انگلیوں کا رخ بھی قبلے کی جانب ہے، اور دونوں پاؤں سیدھے قبلہ رخ رہیں، پاؤں کو دائیں بائیں ترچھا رکھنا خلاف سنت ہے، دونوں پاؤں قبلہ رخ ہونے چاہئیں ۔
دونوں پاؤں کے درمیان کم از کم چار انگل کا فاصلہ ہونا چاہئے۔
اگر جماعت سے نماز پڑھ رہے ہیں تو آپ کی صف سیدھی رہے، صف سیدھی کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنی دونوں ایڑھیوں کے آخری سرے صف یا اس کے نشان کے آخری کنارے پر رکھ لے۔
– نماز شروع کرنے سے پہلے

جماعت کی صورت میں اس بات کا بھی اطمینان کر لیں کہ دائیں بائیں کھڑے ہونے والوں کے بازوؤں کے ساتھ آپ کے بازو ملے ہوئے ہیں اور بیچ میں کوئی خلا نہیں ہے۔ لیکن خلا کو پر کرنے کے لئے اتنی تنگی بھی نہ کی جائے کہ اطمینان سے کھڑا ہونا مشکل ہو جائے۔
اگر اگلی صف بھر چکی ہو تو نئی صف بیچ میں سے شروع کی جائے، دائیں یا بائیں کنارے سے نہیں پھر جو لوگ آئیں، وہ اس بات کا خیال رکھیں کہ صف دونوں طرف سے برابر ہے ۔
پاجامے کو ٹخنے سے نیچے لٹکانا ہر حالت میں ناجائز ہے، ظاہر ہے کہ نماز میں اس کی شناعت اور بڑھ جاتی ہے لہٰذا اس کا اطمینان کر لیں کہ پاجامہ ٹخنے سے اونچا ہے۔
ہاتھ کی آستینیں پوری طرح ڈھکی ہوئی ہونی چاہئیں ، صرف ہاتھ کھلے رہیں ، بعض لوگ آستینیں چڑھا کر نماز پڑھتے ہیں، یہ طریقہ درست نہیں ہے ۔
ایسے کپڑے پہن کر نماز میں کھڑے ہونا مکروہ ہے جنہیں پہن کر انسان لوگوں کے سامنے نہ جاتا ہو۔
نماز شروع کرتے وقت
دل میں نیت کر لیں کہ میں فلاں نماز پڑھ رہا ہوں، زبان سے نیت کے الفاظ کہنا ضروری نہیں ۔
ہاتھ کانوں تک اس طرح اٹھائیں کہ ہتھیلیوں کا رخ قبلے کی طرف ہو اور انگوٹھوں کے سرے کان کی لو سے یا تو بالکل مل جائیں ، یا اس کے برابر آجائیں اور باقی انگلیاں اوپر کی طرف سیدھی ہوں،
بعض لوگ ہتھیلیوں کا رخ قبلے کی طرف کرنے کے بجائے گانوں کی طرف کر لیتے ہیں ۔ بعض لوگ کانوں کو ہاتھوں سے بالکل ڈھک لیتے ہیں ۔بعض لوگ ہاتھ پوری طرح کانوں تک اٹھائے بغیر ہلکا اشارہ سا کر دیتے ہیں۔ بعض لوگ کان کی لو کو ہاتھوں سے پکڑ لیتے ہیں۔یہ سب طریقے غلط اور خلاف سنت ہیں، ان کو چھوڑنا چاہئے۔
مذکورہ بالا طریقے پر ہاتھ اٹھاتے وقت اللہ اکبر کہیں، پھر دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور چھوٹی انگلی سے بائیں پہنچے کے گرد حلقہ بناکر اسے پکڑ لیں اور باقی تین انگلیوں کو بائیں ہاتھ کی پشت پر اس طرح پھیلا دیں کہ تینوں انگلیوں کا رخ کہنی کی طرف رہے ۔
دونوں ہاتھوں کو ناف سے ذرا سا نیچے رکھ کر مذکورہ بالا طریقے سے باندھ لیں ۔
کھڑے ہونے کی حالت میں
اگر اکیلے نماز پڑھ رہے ہوں یا امامت کر رہے ہوں تو پہلے سبحانك اللهم الخ پھر سورہ فاتحہ پھر کوئی اور سورت پڑھیں اور اگر کسی امام کے پیچھے ہوں تو صرف سبحانك اللهم الخ پڑھ کر خاموش ہو جائیں اور امام کی قراءت کو دھیان لگا کر سنیں، اگر امام زور سے نہ پڑھ رہا ہو تو زبان ہلائے بغیر دل ہی دل میں سورہ فاتحہ کا دھیان کئے رکھیں ۔
نماز میں قراءت کے لئے یہ ضروری ہے کہ زبان اور ہونٹوں کو حرکت دے کر قراءت کی جائے بلکہ اس طرح قراءت کی جائے کہ خود پڑھنے والا اس کو سن سکے ۔ بعض لوگ اس طرح قراءت کرتے ہیں کہ زبان اور ہونٹ حرکت نہیں کرتے یہ طریقہ درست نہیں ، بعض لوگ قراءت کے بجائے دل ہی دل میں الفاظ کا تصور کر لیتے ہیں اس طرح بھی نماز نہیں ہوتی ۔
جب خود قراءت کر رہے ہوں تو سورہ فاتحہ پڑھتے وقت بہتر یہ ہے کہ ہر آیت پر رک کر سانس توڑ دیں، پھر دوسری آیت پڑھیں ، کئی کئی آیتیں ایک سانس میں نہ پڑھیں ۔ مثلأ الحمد لله رب العلمین پر سانس توڑ دیں ، پھر الرحمن الرحیم پر پھر ملک یوم پر۔ اس طرح پوری سورہ فاتحہ پڑھیں لیکن اس کے بعد کی قراء ت میں ایک سانس میں ایک سے زیادہ آیتیں بھی پڑھ لیں تو کوئی حرج نہیں ۔
بغیر کسی ضرورت کے جسم کے کسی حصے کو حرکت نہ دیں جتنے سکون کے ساتھ کھڑے ہوں، اتنا ہی بہتر ہے ۔ اگر کھجلی وغیرہ کی ضرورت ہو تو صرف ایک ہاتھ استعمال کریں، اور وہ بھی صرف سخت ضرورت کے وقت اور کم سے کم ۔
جسم کا سارا زور ایک پاؤں پر دیکر دوسرے پاؤں کو اس طرح ڈھیلا چھوڑ دینا کہ اس میں خم آجائے نماز کے آداب کے خلاف ہے، ہے۔ اس سے پرہیز کریں ۔ یا تو دونوں پاؤں پر برابر زور دیں یا ایک پاؤں پر زور دیں تو اس طرح کہ دوسرے پاؤں میں خم پیدا نہ ہو۔
جمہائی آنے لگے تو اس کو روکنے کی پوری کوشش کریں۔
ڈکار آئے تو ہوا کو پہلے منہ میں جمع کر لیا جائے پھر آہستہ سے بغیر آواز کے اسے خارج کیا جائے ۔ زور سے ڈکار لینا نماز کے آداب کے خلاف ہے۔
کھڑے ہونے کی حالت میں نظریں سجدے کی جگہ پر رکھیں، ادھر ادھر یا سامنے دیکھنے سے پر ہیز کریں۔
رکوع میں
رکوع میں جاتے وقت ان باتوں کا خاص خیال رکھیں
اپنے اوپر کے دھڑ کو اس حد تک جھکائیں کہ گردن اور پشت تقریباً ایک سطح پر آجائیں نہ اس سے زیادہ جھکیں نہ اس سے کم ۔
رکوع کی حالت میں گردن کو اتنا نہ جھکائیں کہ ٹھوڑی سینے سے ملنے لگے اور نہ اتنا اوپر رکھیں کہ گردن کمر سے بلند ہو جائے بلکہ گردن اور کمر ایک سطح پر ہو جانی چاہئیں ۔
رکوع میں پاؤں سیدھے رکھیں، ان میں خم نہ ہونا چاہئے,
دونوں ہاتھ گھٹنوں پر اس طرح رکھیں کہ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں کھلی ہوئی ہوں، یعنی ہر دو انگلیوں کے درمیان فاصلہ ہو۔اور اس طرح دائیں ہاتھ سے دائیں گھٹنے کو اور بائیں ہاتھ سے بائیں گھٹنے کو پکڑ لیں ۔
رکوع کی حالت میں کلائیاں اور بازو سیدھے تنے ہوئے رہنے چاہئیں، ان میں خم نہیں آنا چاہئے ۔
کم از کم اتنی دیر رکوع میں رکیں کہ اطمینان سے تین مرتبہ سبحان ربی العظیم کہا جاسکے ۔
رکوع کی حالت میں نظریں پاؤں کی طرف ہونی چاہئیں ۔
دونوں پاؤں پر زور برابر رہنا چاہئے، اور دونوں پاؤں کے ٹخنے ایک دوسرے کے بالمقابل رہنے چاہئیں ۔
رکوع سے کھڑے ہوتے وقت
رکوع سے کھڑے ہوتے وقت اتنے سیدھے ہو جائیں کہ جسم میں کوئی خم باقی نہ رہے ۔
اس حالت میں بھی نظر سجدے کی جگہ پر رہنی چاہئے۔
بعض لوگ کھڑے ہوتے وقت کھڑے ہونے کے بجائے کھڑے ہونے کا صرف اشارہ کرتے ہیں، اور جسم کے جھکاؤ کی حالت ہی میں سجدے کے لئے چلے جاتے ہیں، ان کے ذمے نماز کا لوٹانا واجب ہو جاتا ہے، لہٰذا اس سے سختی کے ساتھ پر ہیز کریں، جب تک سیدھے ہونے کا اطمینان نہ ہو جائے، سجدے میں نہ جائیں۔
سجدے میں
سجدے میں سر کو دونوں ہاتھوں کے درمیان اس طرح رکھیں کہ دونوں انگوٹھوں کے سرے کانوں کی لو کے سامنے ہو جائیں,
سجدے میں دونوں ہاتھوں کی انگلیاں بند ہونی چاہئیں ، یعنی انگلیاں بالکل ملی ملی ہوں اور ان کے درمیان فاصلہ نہ ہو ۔
انگلیوں کا رخ قبلے کی طرف ہونا چاہئے ۔
کہنیاں زمین سے اٹھی ہونی چاہئیں کہنیوں کو زمین پر ٹیکنا درست نہیں,
دونوں بازو پہلوؤں سے الگ ہٹے ہوئے ہونے چاہئیں، انہیں پہلوؤں سے بالکل ملا کر نہ رکھیں ۔
کہنیوں کو دائیں بائیں اتنی دور تک بھی نہ پھیلائیں جس سے برابر کے نماز پڑھنے والوں کو تکلیف ہو۔
رانیں پیٹ سے ملی ہوئی نہیں ہونی چاہئیں ، پیٹ اور رانیں الگ الگ رکھی جائیں ۔
پورے سجدے کے دوران ناک زمین پر ٹکی رہے، زمین سے نہ اٹھے۔
دونوں پاؤں اس طرح کھڑے رکھے جائیں کہ ایڑھیاں اوپر ہوں، اور تمام انگلیاں اچھی طرح مڑ کر قبلہ رخ ہوگئی ہوں ۔ جو لوگ اپنے پاؤں کی بناوٹ کی وجہ سے تمام انگلیاں موڑنے پر قادر نہ ہوں، وہ جتنی موڑ سکیں، اتنی موڑنے کا اہتمام کریں، بلاوجہ انگلیوں کو سیدھا زمین پر ٹیکنا درست نہیں ۔
اس بات کا خیال رکھیں کہ سجدے کے دوران پاؤں زمین سے اٹھنے نہ پائیں ، بعض لوگ اس طرح سجدہ کرتے ہیں کہ پاؤں کی کوئی انگلی ایک لمحہ کے لئے بھی زمین پر نہیں ٹکتی، اس طرح سجدہ ادا نہیں ہوتا اور نتیجتاً نماز بھی نہیں ہوتی ۔ اس سے اہتمام کے ساتھ پرہیز کریں۔
سجدے کی حالت میں کم از کم اتنی دیر گزاریں کہ تین مرتبہ سبحان ربی الاعلیٰ اطمینان کے ساتھ کہہ سکیں، پیشانی ٹیکتے ہی فوراً اٹھا لینا منع ہے۔
دونوں سجدوں کے درمیان
ایک سجدے سے اٹھ کر اطمینان سے دو زانو سیدھے بیٹھ جائیں ، پھر دوسرا سجدہ کریں, ذرا سا سر اٹھا کر سیدھے ہوئے بغیر دوسرا سجدہ کر لینا گناہ ہے اور اس طرح کرنے سے نماز کا لوٹانا واجب ہو جاتا ہے۔
بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھیں، اور دایاں پاؤں اس طرح کھڑا کر لیں کہ اس کی انگلیاں مڑکر قبلہ رخ ہو جائیں ، بعض لوگ دونوں پاؤں کھڑے کر کے ان کی ایڑھیوں پر بیٹھ جاتے ہیں، یہ طریقہ صحیح نہیں ۔
بیٹھنے کے وقت دونوں ہاتھ رانوں پر رکھے ہونے چاہئیں مگر انگلیاں گھٹنوں کی طرف لٹکی ہوئی نہ ہوں بلکہ انگلیوں کے آخری سرے گھٹنے کے ابتدائی کنارے تک پہنچ جائیں ۔
بیٹھنے کے وقت نظریں اپنی گود کی طرف ہونی چاہئیں ۔
اتنی دیر بیٹھیں کہ اس میں کم از کم ایک مرتبہ سبحان اللہ کہا جاسکے، اور اگر اتنی دیر بیٹھیں کہ اس میں اللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِيْ وَارْحَمْنِيْ وَعَافِنِيْ وَاہْدِنِيْ وارْزُقْنِيْ پڑھا جاسکے تو بہتر ہے لیکن فرض نمازوں میں یہ پڑھنے کی ضرورت نہیں، نفلوں میں پڑھ لینا بہتر ہے۔
دوسرا سجدہ اور اس سے اٹھنا
دوسرے سجدے میں بھی اس طرح جائیں کہ پہلے دونوں ہاتھ زمین پر رکھیں پھر ناک پھر پیشانی۔
سجدے کی بیئت وہی ہونی چاہئے جو پہلے سجدے میں بیان کی گئی۔
سجدے سے اٹھتے وقت پہلے پیشانی زمین سے اٹھائیں، پھر ناک پھر ہاتھ پھر گھٹنے ۔
اٹھتے وقت زمین کا سہارا نہ لینا بہتر ہے لیکن اگر جسم بھاری ہو یا بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے مشکل ہو تو سہار ا لینا بھی جائز ہے ۔
اٹھنے کے بعد ہر رکعت کے شروع میں سورہ فاتحہ سے پہلے بسم الله الرحمن الرحیم پڑھیں ۔
قعدے میں
قعدے میں بیٹھنے کا طریقہ وہی ہو گا جو سجدوں کے بیچ میں بیٹھنے کا ذکر کیا گیا۔
التحیات پڑھتے وقت جب ” اشهد ان لاء” پر پہنچیں تو شہادت کی انگلی اٹھا کر اشارہ کریں اور ” الا الله ” پر گرا دیں۔
اشارے کا طریقہ یہ ہے کہ بیچ کی انگلی اور انگوٹھے کو ملا کر حلقہ بنائیں ، چھنگلی اور اس کے برابر والی انگلی کو بند کرلیں اور شہادت کی انگلی کو اس طرح اٹھائیں کہ انگلی قبلے کی طرف جھکی ہوئی ہو ، بالکل سیدھی آسمان کی طرف نہ اٹھانی چاہئے ۔
” الا الله ” کہتے وقت شہادت کی انگلی تو نیچے کر لیں ، لیکن باقی انگلیوں کی جو ہیئت اشارے کے وقت بنائی تھی, اس کو آخر تک برقرار رکھیں ۔
(حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ الاقدس.)
==================
=============