anqalabati zamana
انقلاباتِ زمانہ
بنی اسرائیل کے ایک نوجوان عابد کے پاس حضرت خضر علیہ السلام آیا کرتے تھے
یہ بات اس وقت کے بادشاہ نے سنی … اور اس عابد کو بلایا … اور پوچھا … کیا یہ
سچ ہے کہ تمہارے پاس حضرت خضر علیہ السلام آیا کرتے ہیں؟ … اس نے کہا… ہاں !… بادشاہ نے کہا… اب جب وہ آئیں تو انہیں میرے پاس لے آنا … اگر نہ لاؤ گے … تو میں تمہیں قتل کر دوں گا … چنانچہ حضرت خضر علیہ السلام ایک روز اس کے پاس تشریف لائے … تو اس عابد نے ان سے سارا واقعہ بیان کر دیا ….
آپ نے فرمایا … چلو میں اس بادشاہ کے پاس چلتا ہوں … چنانچہ آپ اس بادشاہ کے پاس آئے … بادشاہ نے پوچھا … آپ ہی خضر ہیں؟ … آپ نے فرمایا …. ہاں ! …. بادشاہ نے کہا … تو ہمیں کوئی بڑی عجیب بات سنائیے … فرمایا میں نے دنیا کی بڑی بڑی عجیب باتیں دیکھی ہیں … مگر ان میں سے ایک سناتا ہوں … لو سنو
میں ایک مرتبہ ایک بہت بڑے خوبصورت اور آباد شہر سے گزرا … اور میں نے اس شہر کے ایک باشندے سے پوچھا … یہ شہر کب سے بنا ہے؟ … تو وہ بولا … یہ بہت پرانا شہر ہے … اس کی ابتداء کا نہ مجھے علم ہے … نہ ہمارے آباؤ اجداد کو … خدا جانے کب سے یہ شہر چلا آتا ہے … پھر میں پانچ سو سال کے بعد اسی جگہ سے گزرا … تو وہاں اس شہر کا نام و نشان نہ تھا
وہاں ایک جنگل تھا … اور ایک آدمی وہاں لکڑیاں چن رہا تھا … میں نے اس سے پوچھا کہ شہر برباد کب سے ہو گیا؟ تو وہ شخص ہنسا… اور کہنے لگا … یہاں شہر کب تھا؟ … یہ جگہ تو مدتوں سے جنگل چلی آ رہی ہے… ہمارے آباؤ اجداد نے بھی یہاں جنگل ہی دیکھا ہے…
پھر میں پانچ سو سال کے بعد وہاں سے گزرا … تو وہاں ایک عظیم الشان دریا بہہ رہا تھا … اور کنارے پر چند شکاری مچھلیاں پکڑ رہے تھے … میں نے ان سے پوچھا … یہ زمین دریا کب سے بن گئی؟ … تو وہ ہنس کر مجھ سے کہنے لگے … آپ جیسے آدمی کو یہ سوال زیب دیتا ہے؟ تعجب ہے … جناب ! یہاں تو ہمیشہ سے دریا ہی بہتا آیا ہے … ہمارے آباؤ اجداد نے بھی یہاں دریا ہی دیکھا ہے
پھر میں پانچ سو سال کے بعد وہاں سے گزرا … تو وہ جگہ ایک بہت بڑا میدان دیکھی … جہاں ایک آدمی کو پھرتے دیکھا… میں نے اس سے پوچھا … یہ جگہ خشک کب سے ہے؟ یہاں کبھی دریا نہیں بہتا تھا؟ تو وہ بولا … ہرگز نہیں … ہم نے ایسا نہ دیکھا… نہ اپنے آباؤ اجداد نے … یہ جگہ تو ہمیشہ سے یونہی چلی آ رہی ہے …
پھر میں پانچ سو سال کے بعد وہاں سے گزرا … تو وہاں پھر پہلے شہر سے بھی زیادہ ایک عظیم الشان شہر دیکھا … میں نے ایک باشندے سے پوچھا … یہ شہر کب سے ہے؟ … وہ بولا … یہ شہر بہت پرانا ہے … اس کی ابتداء کا نہ ہمیں علم ہے … نہ ہمارے آباؤ اجداد کو…
(عجائب المخلوقات للقزوینی، حاشیہ حیاۃ الحیوان، صفحہ ۱۲۹)
صحت کا عجیب نسخہ
حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے محدث، فقیہ اور مجاہد تھے۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے ان سے کہا:
“میرے گھٹنے میں سات سال سے ایک پھوڑا نکلا ہوا ہے، خون رستا رہتا ہے، ہر طرح کا علاج کر چکا ہوں، بہت سے طبیبوں سے بھی رجوع کیا، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔”
حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا
“جاؤ! کوئی ایسی جگہ تلاش کرو جہاں پانی کی قلت ہو اور لوگ پانی کے ضرورت مند ہوں، وہاں جا کر ایک کنواں کھدوا دو۔ مجھے امید ہے کہ جب وہاں پانی کا چشمہ جاری ہوگا تو تمہارا خون رک جائے گا۔”
اس شخص نے ان کے کہنے پر عمل کیا تو تندرست ہو گیا۔
یہ واقعہ علامہ منذری رحمۃ اللہ علیہ نے امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ اسے نقل کرنے کے بعد علامہ منذری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اسی جیسا ایک واقعہ ہمارے شیخ ابوعبداللہ حاکم رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے۔ ان کے چہرے پر پھنسیاں نکل آئی تھیں۔ بہت سے علاج کیے مگر پھنسیاں ختم نہیں ہوئیں۔ تقریباً سال بھر اس تکلیف میں مبتلا رہنے کے بعد وہ جمعہ کے دن امام ابو عثمان صابونی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں پہنچے اور ان سے دعا کی درخواست کی۔
امام صابونی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے لیے دعا کی، حاضرین نے آمین کہی۔ اگلے جمعہ ایک عورت نے امام صابونی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں ایک پرچہ بھجوایا، اس میں لکھا تھا کہ پچھلے جمعہ کو شیخ ابوعبداللہ حاکم رحمۃ اللہ علیہ کی دعائے صحت کے بعد میں گھر گئی، وہاں جا کر بھی میں نے ان کی صحت کے لیے دعا کی۔
اسی رات مجھے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:
“ابوعبداللہ سے کہو کہ وہ مسلمانوں کے لیے وسعت کے ساتھ پانی پہنچانے کا انتظام کریں۔”
شیخ حاکم رحمۃ اللہ علیہ کو جب یہ معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے گھر کے دروازے پر پانی کی سبیل بنا دی، جس سے لوگ خوب پانی پیتے تھے۔ اس واقعے کو ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ شیخ کے چہرے پر شفا کے آثار ظاہر ہونے لگے، پھنسیاں ختم ہو گئیں اور چہرہ پہلے کی طرح صاف اور خوبصورت ہو گیا۔ اس کے بعد وہ کئی سال زندہ رہے۔
(حوالہ: جواہر پارے)
*تکبر کا انجام*
نوفل بن ماحق رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ نجران کی مسجد میں میں نے ایک نوجوان کو دیکھا جو بڑا لمبا چوڑا، جوانی کے نشے میں چور، گٹھے ہوئے بدن والا، بانکا ترچھا اور خوبصورت تھا۔
میں نگاہیں جما کر اس کے جمال و کمال کو دیکھنے لگا۔ اس نے پوچھا: “کیا دیکھ رہے ہو؟”
میں نے کہا: “مجھے آپ کے حسن و جمال پر تعجب ہو رہا ہے۔”
اس نے جواب دیا: “تجھے ہی کیا، الٰہ کو بھی تعجب ہو رہا ہے!”
(نعوذ باللہ)
نوفل رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: جیسے ہی یہ کفریہ کلمہ کہا، وہ سکڑنے لگا، اس کا رنگ و روپ اڑ گیا، یہاں تک کہ اس کا قد ایک بالشت رہ گیا۔ لوگ حیران رہ گئے۔ آخر اس کا ایک رشتہ دار اسے اپنی آستین میں ڈال کر لے گیا۔
(ماخوذ از تفسیر ابنِ کثیر، جلد ۴)
================================================================================