بندے کی زمہ داری

بندے کی زمہ داری بندے کی زمہ داری

بندے کی زمہ داری

انسان کو چاہیے کہ جب وہ دوسرے انسان کے لیے ناپے تو ٹھیک ناپے، اور جب تولے تو ٹھیک تولے۔ ایسا نہ ہو کہ اپنے لیے ایک پیمانہ استعمال کرے اور غیر کے لیے دوسرا پیمانہ۔

وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۖ وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۖ وَبِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ • وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

(سورۃ الأنعام: آیات 152–153)

ترجمہ

اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو بہتر ہو، یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے۔

اور ناپ تول میں پورا انصاف کرو۔ ہم کسی کے ذمہ وہی چیز لازم کرتے ہیں جس کی اسے طاقت ہو۔

اور جب بولو تو انصاف کی بات بولو، خواہ معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا ہو۔

اور اللہ کے عہد کو پورا کرو۔

یہ چیزیں ہیں جن کا اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو۔

اور اللہ نے حکم دیا کہ یہی میری سیدھی شاہراہ ہے، پس اس پر چلو،

اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ تمہیں اللہ کے راستے سے جدا کر دیں۔

یہ اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے تاکہ تم بچتے رہو۔

تشریح

بندے کی زمہ داری
بندے کی زمہ داری

یتیم کسی سماج کا سب سے کمزور فرد ہوتا ہے۔ وہ تمام اضافی اسباب اس کی ذات میں سے حذف ہو جاتے ہیں جو عام طور پر کسی کے ساتھ اچھے سلوک کا محرک بنتے ہیں۔

یتیم کے ساتھ ذمہ داری کا معاملہ وہی شخص کر سکتا ہے جو خالص اصولی بنیاد پر باکردار بنا ہو، نہ کہ فائدہ و مصلحت کی بنیاد پر۔

یتیم کسی سماج میں حسنِ سلوک کی آخری علامت ہوتا ہے۔ جو شخص یتیم کے ساتھ خیرخواہانہ سلوک کرے، وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ بدرجۂ اولیٰ خیرخواہانہ سلوک کرے گا۔

کائنات کی ہر چیز دوسری چیز سے اس طرح وابستہ ہے کہ ہر چیز دوسرے کو وہی دیتی ہے جو اسے دینا چاہیے، اور دوسرے سے وہی لیتی ہے جو اسے لینا چاہیے۔

یہی اصول انسان کو اپنی زندگی میں اختیار کرنا ہے۔

انسان کو چاہیے کہ جب وہ دوسرے انسان کے لیے ناپے تو ٹھیک ناپے، اور جب تولے تو ٹھیک تولے۔

ایسا نہ کرے کہ اپنے لیے ایک پیمانہ استعمال کرے اور غیر کے لیے دوسرا پیمانہ۔

زندگی میں بار بار ایسے مواقع آتے ہیں کہ آدمی کو کسی کے خلاف اظہارِ رائے کرنا ہوتا ہے۔

ایسے مواقع پر اللہ کا پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ آدمی وہی بات کہے جو انصاف کے معیار پر پوری اترنے والی ہو — کوئی اپنا ہو یا غیر، چاہے دوستی یا دشمنی کا تعلق ہو، یا کسی سے کوئی فائدہ وابستہ ہو یا نہ ہو — ان تمام باتوں سے بالاتر ہو کر وہی بات کہے جو فی الواقع درست اور حق ہو۔

ہر آدمی فطرت کے عہد میں بندھا ہوا ہے۔

کوئی عہد لکھا ہوا ہوتا ہے اور کوئی عہد وہ ہوتا ہے جو لفظوں میں لکھا نہیں ہوتا، مگر ایمان، انسانیت اور شرافت کا تقاضا ہوتا ہے کہ اس موقع پر ایسا ہی کیا جائے۔

دونوں قسم کے عہدوں کو پورا کرنا ہر مؤمن و مسلم کا فریضہ ہے۔

یہ تمام باتیں انتہائی واضح ہیں۔

آسمانی وحی اور انسان کی عقل دونوں ان کے برحق ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔

مگر ان سے وہی شخص نصیحت پکڑے گا جو خود بھی نصیحت پکڑنا چاہتا ہو۔

یہ احکام شریعتِ الٰہی کے بنیادی احکام ہیں۔

ان پر ان کے سیدھے مفہوم کے اعتبار سے عمل کرنا اللہ کی سیدھی شاہراہ پر چلنا ہے۔

اور اگر تاویل اور موشگافیوں کے ذریعہ ان میں شاخیں نکالی جائیں، اور سارا زور ان شاخوں پر دیا جانے لگے، تو یہ ادھر اُدھر کے متفرق راستوں میں بھٹکنا ہے — جو کبھی آدمی کو اللہ تک نہیں پہنچاتا۔

=================================================================================

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ

سورة هود

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *