حضرت عبد اللہ بن حذافہ جہاد کر رہے تھے روم کے عیسائیوں نے گرفتار کر لیا ۔ایک ہزار آدمی نے مل کے پکڑا گرفتار نہیں ہوتے تھے صحابی ۔۔ہزار آدمی نے گھیرا ڈالا گرفتار کر کے لے گئے۔ اور جب بادشاہ کے سامنے گئے تو وزیر کہنے لگا، بادشاہ بندہ بڑے کام کا ہے ۔اگر ہمارے قابو اآگیا تو فائدہ دے گا ۔صحابی ہیں،،حضرت عبداللہ بن حذافہ حضرت فاروق اعظم کا زمانہ ہے ۔اگر قابو آگیا تو فائدہ دے گا ۔بادشاہ کہنے لگا کیوں کیا خوبیاں۔ کہنے لگے ۔۔ہم ہزار آدمی تھے یہ اکیلا قابو نہیں آرہا تھا ۔ہزار آدمی تھے۔ اگر ہماری فوج میں شامل ہو گیا تو ۔بہت بڑا جرنیل ملے گا ۔بادشاہ کہنے لگا کوئی مسئلہ نہیں دو تین چیزیں ہوتی ہیں بندے کو خریدنے کے لیے خرید لیتے ہیں ۔۔بادشاہ کہنے لگا؛عبداللہ ؛جتنی دولت چاہیے میں تجھے دے دیتا ہوں تو میرے لشکر میں آجا ،،(معاذ اللہ) اسلام چھوڑ دے،،، حضرت عبداللہ بن حذافہ کیا فرماتے ہیں ؟فرماتے ہیں ،بڑا تو بے وقوف ہے میں نے دولت کمانی ہوتی تو مدینے میں بیٹھ کے تجارت کرتا ۔۔۔میں دولت کمانے نہیں نکلا ،میں تو رسول اللہ کی رضا کمانے کے لیے نکلا ہوا ہوں۔۔دولت کمانی ہوتی تو کسی مارکیٹ میں ہوتا؟ میدان میں آنا تھا ،،،،۔
شہادت ہے مطلوب مقصود مومن۔، نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی ۔یہ دولت تو لونڈی ہے رسول اللہ کے دروازے کی۔۔
یہ تو پیچھے پیچھے پھرتی ہے نبی پاک کے غلاموں کے
یہ کمانی ہوتی تو میں کسی مارکیٹ میں ہوتا میدان میں تھوڑا ہوتا ،،عبداللہ بن حذافہ سےایک دوسری چال چلی ،کہنے لگے میاں ۔عہدہ جوتجھے چاہیے۔ میں بادشاہ ہوں۔۔ میرے نیچے جوعہدہ تو کہے گا وہ تجھے مل جائے گا۔۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ کہنے لگے۔شاید تجھے پتہ نہیں میری تعریف کیا ہے؟کہا صاحب آپ کی کیا تعریف ہے؟کہنے لگے میں رسول اللہ کا صحابی ہوں۔ اور کائنات میں سب سے بڑا عہدہ مصطفی کے صحابی ہونے کا عہدہ ہے ۔
صحابہ وہ صحابہ تھے جن کی ہر صبح صبح عید ہوتی تھی خدا کا قرب حاصل تھا نبی کی دید ہو تی تھی
فرمایا میں نے حضور کے جلوے دیکھے ہوئے ہیں ۔مجھے عہدے کی ضرورت ہی نہیں ۔اور میں نے عہدہ لینا ہوتا تھا تو، میں سیاست کرتا ، میں تو شہادت لینے نکلا ہوں میدان میں ۔عہدے کا میں نے کیا کرنا ہے؟۔۔ اب بادشاہ کہنے لگا اسے قتل کر دو ،،وزیر کہنے لگا۔ نہیں ایک بات اور ہے۔مجھے ایک چال اور چلنے دو۔کہا وہ کیاہے؟۔کہنے لگا میری بیٹی بڑی خوبصورت ہے۔۔۔ مجھے موقع دو۔۔اپنی بیٹی کو سجا بنا کے وہ جوان جس کی جوانی اتنی بڑی ہے،،کہ ایک ہزارآدمی مقابلے میں کھڑا نہیں ہوتا اس جوان کے کمرے میں رات کی تنہائی میں بنا سوارکی بی بی کوبھیجا۔۔وہ بی بی کہتی ہے،،میں ساری رات بن سنور کے اس صحابی کے کمرے میں بیٹھی رہی۔۔لیکن یہ کیا شخص تھا؟۔۔ساری رات ہی مصلے پہ بیٹھارہا۔ساری رات۔ کچھ دیر تھک جاتا۔تویہ کریم رسول پہ درود پڑھنا شروع کر دیتا ۔بی بی کہتی ہے سحری ہو گئی ،تو میں نے چھو کے دیکھا کہ انسان ہے کہ جن،، یہ بندہ ہے کہ فرشتہ ہے چھو کے دیکھا۔۔ کہنے لگے پیچھے ہٹ جا۔ میں نے تو سنا تھا تو ہزار کے مقابلے میں ہے۔۔اور تواتنا بے حس ہے کہ بنی سوری دلہن بیٹھی ہے ۔تو نے نظر نہیں کی۔۔ عبداللہ بن حذافہ۔۔۔بی بی کہتی ہے۔نظر پھر نہیں اٹھائی نظر پھرجھکی ہوئی ہے۔کہنے لگے،،بی بی میں مجبور ہوں۔۔اب میرے اوپر کوئی حسن نہیں چلتا۔۔میں نے جلوہ والضحی کا دیدار کیا ہوا ہے۔۔
اب میری نگاہوں میں جچتا نہیں کوئی اس لیے کہ جیسے میرے سرکار ہے ایسا ایسا نہیں ،،
کہا بی بی اب نہیں کسی کا میرے اوپر جادو چلتا۔اور کہا کہ ذراپیچھے بیٹھ۔ مجھے میرے رسول نے غیر محرم سے بچنے کا حکم دیا ہے ۔ذرا پیچھے ہٹ کے بیٹھ ۔سحری کا وقت تھا۔۔وہ بی بی کہتی ہے،،،اس نوجوان کے جملے میرا سینہ چیر گئے۔۔کلیجہ پھٹ گیا ۔چیخ نکلی،میں کفر کے عالم میں روئی ۔میں نے کہا، مجھے بتا تو سہی آخر یہ جذبہ کہاں سے ملتا ہے؟آخر یہ روشنی تو میں نے دیکھی نہیں۔ کہاں سے آتی ہے؟۔ ایک میرا باپ ہے جو بنا سنور کے مجھے تیرے کمرے میں چھوڑ گیا ۔۔بتلا یہ کہاں کیف آتے ہیں ۔عبداللہ بن حذافہ کہنے لگے،، اگر کیف لینا ہے تو۔تو بھی میرے مصطفی کا کلمہ پڑھ جا۔۔آجا دروازہ رسول پہ جھک جا ۔مل جائے گا۔ سویرے دروازے پہ باپ آیا بیٹی سے نتیجہ لے لینے،،دروازہ کھولا توبیٹی نقاب پہنے باہرآئی،،باپ کہنے لگا کیا بَلا۔۔ کہنے لگی پیچھے ہٹ جا تو غیر محرم ہے ۔ کافر ہے۔ میں مسلمان ہوں۔۔۔اس نے کہا کیا ہوا؟کہنے لگی تیرے جیسے کو باپ کہوں۔تیرے جیسے کو،،جومجھے استعمال کررہا تھا۔۔میں تجھے باپ نہیں مانتی۔ میں اب رسول والی ہو گئی۔ میں حضرت فاطمہ کی کنیزہ ہو گئی۔میں اب نبی کریم کی خادمہ۔خبردار میرے قریب نہ آنا۔ یہ چال بھی ناکام ہوئی ۔ اب حضرت عبداللہ بن حذافہ کے سامنے موت کھڑی کی۔ایک کڑائی میں تیل گرم کیاگیا۔کہنے لگے تجھے اس میں جلایا جائے گا۔۔حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالی عنہ جب چَلنے کے قریب ہوئے تو رونے لگے۔رونے لگے ۔روم کا بادشاہ کہنے لگا شاید ڈر گیا ہے۔۔کہنے لگے اب سمجھ آئی ہے ۔اب تجھے پتہ چلا ہے۔چل آجا۔حضرت عبداللہ بن حذافہ کہنے لگے تو کافر ہے ۔تیری کافروں والی سوچ ہے۔اس لیے نہیں رویا ۔۔کہ موت سے ڈر گیا ہوں۔میں تو اس لیے رویا ہوں کہ۔ایک جان ہے۔وہ نبی پاک پہ قربان ہورہی ہے ۔کاش رب مجھے ایک ہزار جان دیتا ۔میں ساری مصطفی پہ قربان کر دیتا۔