جان لو’ باہم محبت اچھے اخلاق اور اختلافات بد اخلاقی کا نتیجہ ہےِ، اچھے اخلاق باہم محبت الفت، اورموافقت، کا باعث ہے اور برے اخلاق سے بغض، وعداوت، حسد، اور ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرنے جیسی برائیاں پیدا ہوتی ہے۔۔۔
جب درخت اچھا ہو تو اس کا پھل بھی عمدہ ہوتا ہے دین میں اچھے اخلاق کی فضیلت کوئی پوشیدہ بات نہیں اللہ تعالی نے اس بات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یوں تعریف کی۔۔
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے “ بے شک آپ خلق عظیم کے مالک ہے۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، تقوی اور اچھے اخلاق کے باعث زیادہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔۔
حضرت اسامہ بن شریک رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں، ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ انسان کو کون سی اچھی بات عطا کی گئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اچھے اخلاق۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے، میزان میں جو سب سے زیادہ وزنی چیز رکھی جائے گی وہ اچھے اخلاق ہے۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، اللہ تعالی نے جس کی صورت و سیرت کو اچھا بنایا اسے اگ نہیں جلائے گی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا ۔
اے ابوہریرہ تم پر اچھے اخلاق کو اپنانا لازم ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ حسن خلق کیا ہے تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو تم سے قطع رحمی کرے تم اس سے صلہ رحمی کرو جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کر دو اور جو تمہیں نہ دے تم اسے دو۔ یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ
اچھے اخلاق کا نتیجہ محبت کا پیدا ہونا اور وحشت کا خاتمہ ہے اور جب پھل دینے والا درخت اچھا ہو تو پھل بھی اچھا ہوتا ہے اور یہ کیسے نہیں ہوگا کہ جب نفس الفت کی تعریف کی گئی ہے خصوصا جب کہ تقوی دین اور اللہ تعالی کے لیے محبت کی بنیاد پر رابطہ ہو اس سلسلے میں آیات احادیث و اثار اس قدر وارد ہیں جو اس کی فضیلت کے لیے کافی ہے۔
اللہ تعالی نے مخلوق پر اپنا بہت بڑا احسان ظاہر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ۔
اگر اپ وہ تمام کچھ خرچ کرتے ہوجو زمین میں ہے تو ان کے دلوں کو جوڑ نہ سکتے لیکن اللہ تعالی نے ان کے درمیان الفت پیدا فرمائی ہے۔۔
اور ایک جگہ ارشاد فرمایا، پس تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، تم میں سے وہ شخص مجلس میں میرے زیادہ قریب ہے جن کے اخلاق سب سے اچھے ہو جو اپنے پہلوؤں کو جھکائے دیتے ہیں وہ دوسروں سے محبت کرتے اور دوسرے ان سے محبت کرتے ہیں۔
ایک مرتبہ اللہ تعالی نے حضرت داود علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف وحی بھیجی کہ اے داود علیہ الصلاۃ والسلام کیا بات ہے؟ کہ میں اپ کو الگ دیکھ رہا ہوں انہوں نے عرض کیا یا اللہ میں نے تیری خاطر مخلوق کو چھوڑ دیا ہے اللہ تعالی نے فرمایا اے داود علیہ الصلاۃ والسلام ہوشیار رہیں اور اپنے اپ کے لیے دوست تلاش کرے اور جو دوست میری مسرت پر اپ کی موافقت نہ کرے اس سے دوستی نہ لگائیے اور وہ اپ کا دشمن ہے وہ اپ کے دل کو سخت کر دے گا اور اپ کو مجھ سے دور کر دے گا حضرت داؤد علیہ الصلاۃ والسلام کے واقعات میں ہے انہوں نے عرض کیا اے میرے رب کس طرح ہوگا سب لوگ مجھ سے محبت کرے اورمیرا تیرے ساتھ معاملہ بھی سلامت رہے؟
اللہ تعالی نے فرمایا، لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش اؤ اور میرے ساتھ معاملے کو بھی اچھا رکھو،
بعض روایات میں فرمایا گیا دنیا والوں سے دنیاوی طریقہ کو اپناؤ اور اخرت والوں سے اخرت کے طریقے کو اپناؤ
اور ایک جگہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کی شان یوں بیان فرمائی ہے
کہ مومن محبت کرنے والا ہوتا ہے اور اس سے محبت کی جاتی ہے جو لوگ دوسروں سے محبت نہیں کرتے نہ ان سے محبت کی جاتی ہواور ان میں کوئی بھلائی نہیں۔
اللہ تعالی اچھے اخلاق والے آدمی کو اچھے اخلاق والے ہی لوگ عطا کرتا ہے،اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے اچھا دوست عطا کرتا ہے اگر یہ بھول جائے تو وہ اسے یاد دلاتا ہےاوراگر اسے یاد ہو تو اس کی مدد کرتا ہے۔۔۔
جب دو مومن بھائیوں کی باہم ملاقات ہوتی ہے تو وہ دونوں ہاتھوں کی طرح ہوتے ہیں جس طرح سےایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کو دھوتا ہے۔۔ اور جب بھی دو مومن بھائی ملاقات کرتے ہیں اللہ تعالی انہیں ایک دوسرے سے فائدہ پہنچاتا ہے۔۔
حضرت ابو ادریس خولانی رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا کہ میں اپ سے اللہ تعالی کے لیے محبت کرتا ہوں انہوں نے فرمایا تمہیں خوشخبری ہو (دو بار فرمایا) کیوں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، قیامت کے دن لوگوں کی ایک جماعت کے لیے عرش کے گرد کرسیاں رکھی جائے گی ان لوگوں کے چہرے چودوی رات کے چاند کی طرح ہوں گے اور وہ خوفزدہ نہیں ہوں گے حالانکہ دوسرےلوگ خوف زدہ ہوں گے،ان لوگوں کو کوئی ڈر نہیں ہوگا اور یہ اللہ تعالی کے دوست ہیں جن پر نہ خوف ہوگا نہ کوئی غم، عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کون لوگ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ لوگ ہیں جو ایک دوسرے سے خدا کے لیے محبت کرتے ہیں۔۔
اللہ تعالی قیامت کے دن فرمائے گا وہ لوگ کہاں ہیں جو میرے جلال کے خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اج میں ان کو اپنے سائے میں جگہ دوں گا جب کہ میرے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں
ایک روایت میں ہے اللہ تعالی نے حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف وحی بھیجی کہ اگر اپ تمام اسمانوں اور زمین والوں کی عبادت کے برابر عبادت کرے لیکن اللہ تعالی کے لیے کسی سے محبت اور اللہ تعالی کے لیے کسی سے دشمنی نہ رکھے تو یہ عبادت اپ کو کچھ فائدہ نہ دے گی۔۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک شخص اپنے ایک دینی بھائی سے ملاقات کے لیے گیا تو، اللہ تعالی نے اس کے راستے میں ایک فرشتہ بٹھا دیا اس نے پوچھا، کہاں جا رہے ہو اس نے جواب دیا فلاں بھائی سے ملاقات کے لیے جا رہا ہوں، اس نے پوچھا اس سے کوئی کام ہے اس نے جواب دیا نہیں فرشتے نے پوچھا، تمہارے درمیان کوئی رشتہ داری ہے اس نے کہا نہیں اس نے تم پر کوئی احسان کیا ہے اس نے جواب دیا نہیں اس نے پوچھا، تم پھر کیوں اس سے ملاقات کر رہے ہو اس نےجواب دیا اللہ تعالی کے لیے اس سے محبت کرتا ہوں، فرشتے نے کہا اللہ تعالی نے مجھے تیری طرف بھیجا ہے ‘ اور وہ تمہیں مطلع کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالی سے تم سے محبت کرتا ہے اور اس نے تمہارے لیے جنت واجب کر دی ہے۔۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایمان کی رسیوں میں ہے سب سے زیادہ مضبوط رسی اللہ تعالی کے لیے محبت اور اللہ تعالی کے لیے نفرت ہے۔۔
اسی لیے واجب ہے کہ ادمی کے کچھ دشمن ہونے چاہیے جن سے وہ اللہ تعالی کے لیے دشمنی رکھتا ہو (جیسے) اس کے دوست اور بھائی ہوتے ہیں جن سے اللہ تعالی کے لیے محبت کرتا ہے۔۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
بے شک اللہ تعالی کے یہاں تم میں سے سب سے زیادہ محبوب وہ لوگ ہیں جو دوسروں سے محبت کرتے اور وہ ان سے محبت کرتے ہیں ،اور سب سے زیادہ برے لوگ وہ ہیں جو چغل خور ہے اور مسلمان بھائیوں کے درمیان تفرق ڈالتے ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی کا ایک فرشتہ ہے جس کا نصف اگ سے اور نصف برف سے بنا ہوا ہے وہ کہتا ہے یا اللہ جس طرح تو نے برف اور اگ میں الفت پیدا کی ہے اسی طرح اپنے نیک بندوں کے دلوں کو بھی جوڑ دے۔۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی مسلمان بھائی محبت کرے تو اسے مضبوطی سے پکڑو کیونکہ ایسے لوگ کم ملتے ہیں۔۔
حضرت فضیل رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنے بعض کلام میں فرمایا۔۔
،ہائے افسوس: تم جنت الفردوس میں رہنا اور اللہ تعالی کے گھر میں انبیاء کرام، صدیقین اور شہداء، کے ساتھ ان کا پڑوسی چاہتے ہو لیکن بتاؤ کس عمل کے ذریعے جو تم نے کیا ہو؟ تم نے کس خواہش کو چھوڑا ہے، کس غصے کو پیا ہے، کون سے قطع رحمی رحم کرنے والے سے صلہ رحمی کی ہے، تم نے اپنے مسلمان بھائی کی کون سی غلطی معاف کی ہے، تم نے اپنے کون سے رشتہ دار سے اللہ تعالی کی خاطر دوری اختیار کی ہے، اور کس غیر رشتہ دار کو اللہ تعالی کے خاطر اپنے قریب کیا ہے
ایک روایت میں ہے اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف وہی بھیجی ، کہ آپ نے میرے لیے کوئی عمل نہیں کیا انہوں نے عرض کیا ۔ یا اللہ میں نے تیرے لیے نماز پڑھی ، روزہ رکھا، صدقہ ، اور زکوۃ دی، اللہ تعالی نے فرمایا بے شک نمازآپ کے لیے دلیل ہے، روزہ ڈھال ہے، صدقہ سایہ ہے، زکوۃ نور ہے، بتائیے اپ نے خالص میرے لیے کیا عمل کیا؟ حضرت موسی علیہ الصلاۃ والسلام نے عرض کیا یا اللہ مجھے بتا تیرے لیے کون سا عمل ہے ، اللہ تعالی نے فرمایا ۔ اے موسی کیا اپ نے کبھی میری خاطر کسی سے دوستی لگائی ؟میرے خاطر کسی سے دشمنی کی؟ چنانچہ حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام سمجھ گئے کہ سب سے افضل اللہ تعالی کے لیے محبت کرنا اور اللہ تعالی کے لیے دشمنی رکھنا ہے۔۔
مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالی سے محبت میں جب قوت پیدا ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں ہر اس شخص سے محبت ہو جاتی ہے جو علم یا عمل کے ذریعے اللہ تعالی کے حق کو قائم کرتا ہے اور ہر اس ادمی سے محبت ہو جاتی ہے جس میں اچھے اخلاق یا آداب شرع جیسی پسندیدہ صفات پائی جاتی ہے جو شخص اخرت سے محبت کرتا اور اللہ تعالی کا محب ہے ۔
جب اسے دو قسم کے ادمیوں یعنی ایک عالم عابد اور دوسرے جاہل فاسق کی حالت بتائی جائے تو اس کا قلبی میلان عالم اور عابد کی طرف ہوتا ہے۔۔۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اے اللہ ہم سب کو مومن دوست نصیب فرما امین