صلاح الدین ایوبی کی مختصر زندگی
مسلمانوں پہ ظلم ہوا ۔پورے فلسطین کی گلیاں خون سے بھر گئی ایک دن کے اندر 70 ہزار 70 ہزار مسلمان قتل ہوئے۔گھوڑوں سے سڑکوں پہ چلا نہیں جاتا تھا گھوڑے پھسلتے اتنا خون تھا ۔اور کچی سڑکیں تھی اتنا خون تھا ۔پہلے کچی زمین نے خون پیا پھر خون اس زمین سے باہر آیا ۔ایک دن میں 70 ہزار آدمی قتل ہوئے ۔صلاح الدین ایوبی کون تھے ۔(آپ لوگ کو معلوم چاہیے )۔میرے غوث اعظم ؓجیلانی کے مدرسے کے طالب علم تھے۔جس کا نام جامعہ نظامیہ ہے ۔اس مدرسہ کے طالب علم تھے۔ یہ مدرسے ہیں جنہوں نے دین کے مجاہد پیدا کیے۔ انہوں نے دین کے مجاہد پیدا کر کے پوری دنیا کے اندر دین پھیلائے ہیں ۔ لیکن ابھی بھی کچھ مدرسے ہیں جن مدرسوں سے رسول اللہ کے دین کا سچا سبق دیا جاتا ہے ۔۔امن پیار سے محبت کی فضا کو عام کیا جاتا ہے وہ مدارس انشاءاللہ قیامت کی صبح تک وہ قائم رہیں گے۔۔ صلاح الدین ایوبی مدرسے کے طالب علم ہے لیکن مدرسہ اسکا تھاجو ساتھ درویش بھی تھا ۔صلاح الدین ایوبی اکیلےاپنے دوستوں سے کہنے لگے ۔مسلمانوں کی مدد کو نکلو ،جب صلاح الدین ایوبی نے کہا ۔تودوستوں نے کہا ،،، تیرے نکلنے سے کیا ہوگا ۔۔صالح الدین ایوبی کہنے لگے میں نہیں نکلنا۔ میرے اللہ نے میری مدد کردی ہے
(اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے)
فرمایا مجھے نکلنے دے اللہ میری مدد کرے گا۔ تھوڑا تھوڑا کر کے فوج جمع کرنے کوشش کی چند سالوں کے بعد اسی جگہ جہاں مسلمانوں کا خون بہا تھا ۔ صلاح الدین ایوبی نےپھر سے اسلام کا جھنڈا بلند کر دیا ۔۔صلاح الدین ایوبی فاتح بن کے مسجد اقصی کے دروازے پہ کھڑے ہوئے ۔ چند سال گزرے ،،عیسائیوں کو اپنا وہ ظلم ابھی یاد ہے۔ اور عیسائی کے سارے لیڈر کہتے ہیں ،تیاری کر لو ،اب ہمارے بچے کاٹے جائیں گے عورتیں بیوہ ہوں گی گردنیں کٹیں گی اب دیکھنا کتنا خون ہم نے بہایا تھا مسلمان اس سے دگنا بہائیں گے ۔صلاح الدین ایوبی گھوڑے پہ کھڑے ہیں اور پوچھتے ہیں ۔ائے عیسائیوں بتاؤ تمہارے ساتھ کیا کروں گردنیں جھک گئیں ۔جواب میں کسی نے کچھ بھی نہیں کہا ۔تم نے ایک دن میں70 ہزار مسلمان مارا تھا ۔۔بولو ،،،تمہارے ساتھ کیا کروں تم نے ایک دن میں مسلمانوں کو یوں کاٹے جیسے گاجر مولی کاٹی جاتی ہے ۔ بولو اب میں کیا کروں۔ عیسائی کہنے لگے ہمیں اپنے ظلم یاد ہے تشدد یاد ہے بربریت یاد ہے ۔تو بہتر جانتا ہے تو نے کیا کرنا ہے۔ صلاح الدین ایوبی گھوڑے پہ فاتح بن کھڑائےہیں۔ انکھوں میں انسو ائے تڑپ کے روئے کہنے لگاے۔میں تمہارے ساتھ وہی سلوک کروں گا جو میرے مصطفیﷺ نے قریش مکہ کے ساتھ فرمایا تھا۔۔ جاؤ تم پر کوئی زیادہ نہیں جاؤ تم آزاد ہو ۔تو عیسائیوں نے کہا تو کر کیا رہا ہے ۔کہنے لگاےمیں کیا کروں، میں محمد ﷺکا ماننے والا ہوں جس نے معاف کرنا سکھایا ہے۔ میرے پیروں میں زنجیر ہے رسول اللہ کی غلامی کی۔ جاؤ تم آزاد ہو ۔ تو لوگوں نے کلمہ پڑھنا شروع کر دیا سارے قبیلے کے لوگ مسلمان ہوئے ۔۔مگر ایک قبیلہ رہ گیا مسلمان ہی نہیں ہوتا !صلاح الدین ایوبی اپنے خیمے میں بیٹھے ہیں ۔۔تو ایک عورت آ گئی۔ اس کے قبیلے کا کوئی شخص مسلمان نہیں ہوتا عورت آئی آکے کہنے لگی،، میرے چار بیٹے جنگ میں کھو گئے ہیں چھوٹے چھوٹے بچے جنگ میں کھو گیئےمل نہیں رہے ۔۔فوجیوں کو حکم دے مجھے میرے بچے تلاش کر کے دیں۔۔ صلاح الدین ایوبی نے جھٹپٹ سر پہ امامہ باندھا نیزا پکڑا اپنے جبے کو سمیٹا ۔۔ اب عورت کہنے لگی تو کدھر جا رہا ہے، کہنے لگاےمیں خود تیرے بچوں کو تلاش کر کے دوں گا۔ صلاح الدین ایوبی کے چند سپاہی ساتھ ہے گلی گلی نکلے فجر سے عصر ہو گئی تھک گئے۔ دو نماز صحرا میں پڑھی جنگل کے اندر پہنچے تو ایک کونے میں چار بچے ایک جگہ ڈرے اور سہمے ہوئے بیٹھے ملے ۔صلاح الدین ایوبی اٹھا کے لائے ماں کو کہنے لگے تیرے بچے ہیں۔میں نکلا اس لیے تھا کہ میرے نبی نے فرمایا ۔بچے جدا ہوں تو ماں کو درد بڑا ہوتا ہے۔ اور میرے رسولﷺ نے فرمایا تھا جب جنگ کرنے جاؤ ۔۔تو کھیت برباد نہ کرنا فصلیں تباہ نہ کرنا بچوں کو ماں سے جدا نہ کرنا ۔فرمایا میں سوچ رہا تھا تیرے بچے کہیں میری وجہ سے جدا ہوگے ۔تو مصطفیﷺ کو جواب کیا دینا۔ فرمایا تیرے بچے ڈھونڈ کے لایا ہوں ۔بچے ماں کے پاس آنے لگے تو ماں نے بڑے بیٹے کے منہ پہ تھپڑ مارا ۔کہتا ہے ماں کیا ہوا ؟کہنے لگی ،،تو نے سنا نہیں کہ اسلام دشمن کے بچوں کی اتنی حفاظت کرتا ہے میرے پاس نہ آؤ۔ جاؤ۔ اس کے قدموں میں بیٹھ جاؤ ۔۔جس نبی کے غلام اتنے سچے ہیں۔ وہ نبی کتنا سچا ہوگا ۔ جا ،جا کے کلمہ پڑھ لے
یہ ہے صلاح الدین ایوبی کی مختصر زندگی