اللہ تبارک و تعالی قران مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔۔۔۔
افحسبتم انما خلقناكم عبثا وانكم الينا لا ترجعون
کیا تم یہ گمان کرتے ہو کے تم کو ہم نے بےکار پیدا کیا اور تم کو ہماری طرف لوٹ کر انا نہیں ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
صحت اور فراغت نعمت الہی میں سے ہے بہت سے لوگ وقت اور صحت کے متعلق خسارے میں ہے۔۔
وقت کی فراغت سے ٹھیک ٹھیک فائدہ حاصل نہ کیا جائے تو انجام خطرناک ہو سکتا ہے خاص کر بچے جب وقت ضائع کرنے کی عادت کے ساتھ نش و نما پائے اور وقت سے کام نہ لینے کے ساتھ پروان چڑھے تو معاملہ اور گھمبیرہوسکتا ہے، فراغت کے بطن سے بہت ساری آفاتیں جنم لیتی ہے’’ اور بیکاری کی گود سے ہزاروں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہے’’ لہذا اگر عمل اور وقت سے کام لینا زندہ اور زندگی کی علامت ہے’’ تو بے کاری مترادف موت ہے۔۔۔
اور بےکار انسان مردوں کے مانند ہے وقت کو خراب کرنے والے لوگوں کا انجام انتہائی ہلاکت اور ناکامی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔۔ اس لیے اللہ تعالی نے انسان کو وقت ضائع کرنے کے لیے نہیں پیدا فرمایا بلکہ دونوں جہاں کی کامیابی کے لیے وقت سے کام لینے کے لیے پیدا کیا ہے اسی لیے کہ قیامت کے دن انسان کی عمر کے متعلق اس سے پوچھا جائے گا کہ عمر کو کس عمل میں خرچ کیا اللہ تعالی انسان کو بے کار تو پیدا نہیں کیا۔۔
وقت کی اہمیت کو بتاتے ہوئے امام شافعی رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ قول انتہائی اہم ہے
اذا لم تشغل نفسک بالحق شغلتک بالباطل
ترجمہ ۔۔ اگر تم اپنے نفس کو حق اور درست کام میں نہیں لگاؤ کہ تو وہ تمہیں باطل اور بیکارکام میں لگا دے گا ۔۔
تربیت ماہرین کے یہاں معروف ہے کہ اگر بچے کو ازادی میسر ہو تو اس کی فکریں اس طرح خراب ہو جاتی ہیں کہ پھر کام میں مشغول ہو کر بھی اس سے چھٹکارا نہیں پا سکتا ۔۔
یہی وجہ ہے کہ بچے کو تو کیا کسی بڑے ادمی کو بھی فراغت بیکاری میسر ہو تو پریشانی کے شیاطین اس پر حملہ آور ہونے میں دیر نہیں لگاتے” تو اس حالت میں تربیت کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ بچوں کو کسی ایسے کام میں مشغول کرے جو اس کے پورے وقت کو مصروف کر دے اور اس کے غلط خیالات و فکرے ذہن سے نکال کر پھینک دے۔۔
کسی ماہرین تربیت کا کہنا ہے،، جب ہم کسی کام میں مگن ہوتے ہیں تو کسی ذہنی پریشانی کا تصور تک نہیں ہوتا اور جب ہم فارغ ہوتے ہیں تو ذہنی خیالات کے اعتبار سے خطرناک ترین لمحات میں ہوتے ہیں ۔۔
اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اگر بچہ سارا وقت بیکار گزارتا ہے اور تربیت کرنے والا اس کے ذہنی خیالات کی نگرانی بھی کرتا ہے تو بلاشبہ وہ بچہ شک و شبہات اور وسواس کی زنجیر میں بری طرح جکڑجاتا ہے اور وہ ساری زندگی پریشان رہتا ہے ۔۔
اس لیے والدین اور استاد پر واجب ہے کہ وہ ازادی کے ذہنی فکر سے بچے کی بھرپور حفاظت کرے اور وقت کی اہمیت وہ قدروقیمت کو اس کے دل و دماغ میں بٹھانےکی ہر طرح کی کوشش کرے،، جب بچہ پورے وقت کاموں میں مصروف ہوگا تو غلط اثرات سے اس کی حفاظت ہو سکتی ہے ۔۔
وقت کو ضائع کرنا ہزاروں نقصانات کا باعث ہے، اور بے شمار ذہنی فکروں کو برباد کر دیتا ہے ۔۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ اور فرمایا کرتے تھے ، اگر میں کسی شخص سے ملاقات کروں اور وہ مجھے اچھا لگے تو اس سے پوچھتا ہوں اس کا کوئی مشغلہ بھی ہے اگر مجھے پتہ چل جاتا ہے کہ وہ بے کار ہے تو میری نظر سے گر جاتا ہے۔۔
حضرت امام برہان الدین زرنوجی ارشاد فرماتے ہیں۔۔
طالب علم کو چاہیے کہ وہ وقت سے بھرپور فائدہ اٹھائے تاکہ خوب فضیلت حاصل کر سکے ، حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے بارے میں ایا ہے کہ وہ اپنے شاگردوں اور وقت کے علماء سے فرمایا کرتے تھے کہ میں نے حضرت صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ وقت کی اتنی حفاظت کرتے تھےجتنا تم اپنےدرہم ودینارکی حفاظت کرتے ہو۔۔
ناظرین اکرام : اپنے بچوں کو کام میں لگا کر ان کی اخرت کے لیے تو شاہ تیار کرو،: نفس پرستی سے ان کی حفاظت کرواور ان کے دل میں وقت کی قدر و قیمت ڈال دو اور اپنی اولاد کو نصیحت کرتے رہو ۔۔
پیارے بیٹے : تم اپنے نفس کی شرارتوں سے اگاہ ہو جاؤ کوتاہیوں پر نادم ہو جاؤ اللہ کے کامل بندوں کے سامنے رہا کرو جب تک وقت میں گنجائش ہو،ضائع شدہ لمحات کو یاد کرو عبرت حاصل کرنے کے لیے اتنا کافی ہے ۔۔ اور فضائل کے مراتب میں کمی محسوس کرو ان کواس طرح کی نصیحتیں کرتے رہو ۔۔
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو یہ سمجھائیں کہ وقت انسان کا قیمتی ترین اثاثہ ہے اور تمام چیزوں سے معزز ہے مگر جلدی ختم ہونے والا ہے اور جب ہاتھ سے نکل جائے تو دوبارہ اسے ہاتھ میں لانا ممکن نہیں ہے اسی وجہ سے کسی دانشور کا قول ہے کہ وقت تلوار کی طرح ہے اگر اسے نہیں کاٹو گے تو وہ تمہیں کاٹ دے گا