روزوں کی نیت کس طرح کرے؟
جو روزے اللہ کی طرف سے خاص ہے جیسے رمضان کے روزے یا بندے کی طرف سے خاص ہے جیسے نذر معین کے روزے اور نفل روزے ان میں صرف روزے کا ارادہ کر لینا کافی ہے وقت اور دن کی کوئی ضرورت نہیں ہے اگر رمضان میں یا نذر معین کے دن صرف روزے کا ارادہ کر لے تو نفل نہیں بلکہ رمضان میں رمضان کا روزہ ہوگا اور نظر معین کے دن اس نظر کا روزہ ہوگا اور باقی دنوں میں نفل روزہ شمار ہوگا
روزوں کی نیت کا وقت
رمضان میں اور نظر معین اور نفل روزوں کی نیت رات سے لے کر یا صبح کے آدھے دن سے پہلے پہلے کر لے تو جائز ہے
دن سے مراد کیا ہے
اوپر جو دن بتایا گیا ہے وہ دن سے مراد شرعی دن مراد ہے
شرعی دن کس کو کہتے ہیں؟
جو صبح صادق سے غروب آفتاب تک ہے مثلا اگر چار بجے صبح صادق ہوا ۔اور چھ بجے آفتاب غروب ہوا تو شرعی دن 14 گھنٹوں کا ہوا۔ اور آدھا دن 11 بجےکا ہوا ،تو 11 بجے سے پہلے نیت کر لینی ضروری ہے( یہ شرعی دن ہے)
عام دن جو شمار کرتے ہیں وہ طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک ہے یعنی یہ دنیا والوں نے جو دن بنایا ہے وہ دن ہے
کیا رمضان کے روزوں میں تعیین کی ضرورت ہے؟
رمضان کے روزے رکھنے کے لیے تعیین کی نیت شرط نہیں ہے یعنی دل یا زبان سے یہ کہنا ضروری نہیں کہ میں کل رمضان کا روزہ رکھوں گا بلکہ صرف ایک کہنا ہے کہ میں کل آئندہ روزہ رکھوں گا کافی ہے کیونکہ رمضان میں غیر رمضان کے روزے جائز نہیں ہیں بلکہ صرف رمضان کا روزہ جائز ہے اگر کسی نے نفل روزہ رکھا رمضان میں تو اس کا نفل روزہ شمار نہیں ہوگا بلکہ رمضان کا روزہ شمار ہوگا اگر کوئی مسافر رمضان میں سفر کیا اور روزہ رکھا تو اس کا بھی روزہ رمضان کا روزہ شمار ہوگا
اور دوسرا قول یہ ہے کہ مسافر کی نیت کے مطابق نفل روزہ ادا ہو جائے گا
اگر مریض نے رمضان میں نفل روزے کی نیت کی تو نفل روزہ ادا نہ ہوگا بلکہ موجودہ رمضان کا روزہ ہی ادا ہوگا کیوں کہ مریض کے لیے روزہ نہ رکھنے کی اجازت حقیقی عجز کے ساتھ متعلق ہے اور اس کا روزہ رکھنا اس کے عجز نہ ہونے کی دلیل ہے اور جب وہ عاجز نہیں ہے تو اس پر رمضان کا روزہ واجب ہوگا
بعض علماء کرام نے فرمایا ہے کہ مریض کی رخصت احتمالی عجز کے ساتھ متعلق ہے اور احتمالی عجز بیماری بڑھ جانے کا اندیشہ ہے یعنی اگر مریض کو روزہ رکھنے سے مرض بڑھ جانے کا اندیشہ ہو تو اس کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے اور اگر اس نے روزہ رکھ لیا تو پھر رمضان کا روزہ ہی شمار ہوگا
ٓٓٓٓ——————————————————–