نماز تراویح دور نبوت اور دور صحابہ میں

نماز تراویح دور نبوت اور دور صحابہ میں نماز تراویح دور نبوت اور دور صحابہ میں

نماز تراویح دور نبوت اور دور صحابہ میں

رمضان المبارک کی ایک عظیم الشان عبادت نماز تراویح ہے ۔جو اپنی ایک الگ پہچان رکھتی ہے .نماز تراویح کے ذریعے رمضان المبارک میں مسجدوں کی رونق بڑھ جاتی ہے۔ اور عبادت کے شوق میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا ہے۔ احادیث صحیح سے ثابت ہے ،کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک میں تین دن مسجد نبوی میں باجماعت نماز پڑھائی ۔لیکن جب مجموعہ کثیر تعداد میں بڑھنے لگا اور صحابہ کرام کے غیر معمولی ذوق و شوق کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں یہ نماز امت پر فرض نہ کر دی جائے تو  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سلسلے کو روک دیا( بخاری شریف : 1.269

لیکن ساتھ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کی راتوں میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کی ترغیب دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو رمضان المبارک کی راتوں کو ایمان اور اخلاص کے ساتھ عبادت میں گزارے گا اس کے سب پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ترغیب کی وجہ سے تمام صحابہ کرام رمضان المبارک میں زیادہ سے زیادہ عبادت کا اہتمام کرتے تھے ۔جو لوگ قران کریم کے حافظ تھے وہ خود نوافل میں قران پڑھتے اور جو حافظ نہیں تھے وہ کسی حافظ کی اقتدا میں قران کریم  کو  سننے   کی سعادت حاصل کرتے تھے

ایک حدیث شریف میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ رمضان المبارک کی رات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  مسجد میں تشریف لائے تو دیکھا کہ مسجد کے ایک کنونے میں کچھ لوگ  جماعت سے نماز پڑھ رہے تھے، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معلوم کرنے پر کسی نے جواب دیا کہ ایک صحابی  ہے جو کہ قرآن حفظ یاد کیے ہیں وہ قرآن پڑھا رہے ہیں اور یہ لوگ ان کی اقتدا میں نماز ادا کر رہے ہیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ  ان لوگوں نے جو کیا بہت اچھا کیا

ان باتوں سے تو معلوم ہو گیا کہ دور نبوت میں رمضان کی ایک   خصوصی نماز  جسے بعد میں تراویح کا نام دیا گیا ہے یہ یقینا پڑھی جاتی رہی

اور صحابہ اکرام رضی اللہ تعالی عنہم اس نماز سے بخوبی  واقف تھے اور تنہا تنہا اور کبھی کبھی جماعت سے اس نماز کو پڑھا کرتے تھے ۔پھر    ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں بھی یہی طریقہ رائج تھا۔  اور جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ  کا شروع ہوا تو ، دور خلافت کی ابتدائی کے چند سال سخت آزمائش کے تھے چونکہ اس وقت ایران اور روم فتح نہیں ہوا تھا اور تمام مسلمان روم اور ایران کو فتح کرنے میں مصروف تھے ۔جب یہ طاقتیں ٹوٹ گئی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دور خلافت کے آخری چھ سال میں ملک و ملت کی تنظیم سے تعلق رکھنے والے بہت سے کام کیے ان  میں سے ایک کام باقاعدہ جماعت کے ساتھ نماز  تراویح کا نظام بنایا  تھا ۔ شروع میں تو امام تراویح کے آٹھ رکعت پڑھایا کرتا تھا اور سحری کے وقت یہ نماز پڑھی جاتی تھی اس وقت  لوگوں کا   یہ خیال تھا کہ یہ تہجد   کی نماز ہے ،پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے یہ بات آئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دو یا تین دن جماعت کے ساتھ نماز پڑھائی ہے وہ 20 رکعت ہے۔ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے نظام بدل دیا اور حضرت  ابی  بن کعب ؓاور حضرت  تمیم  دا ریؓ     کوحکم دیا کہ 20 رکعت پڑھائیں اور مختصر پڑھائے اور لوگوں کو سونے کا موقع دیا جائے، کیونکہ  آخری حصے میں اٹھ کر   ہر شخص تنہا تہجد کی نماز پڑھے

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے سے آج تک امت کے ہر امیر و غریب نماز تراویح میں جماعت کے ساتھ ایک صف میں ایک ساتھ ٹھہر کر  20رکعت پڑھتے چلے آرہے ہیں۔ انہی روایات وہ آثار کی وجہ سے  جمہور  علماء امت اور حضرت ائمہ  اربعہ کا متفقہ فیصلہ یہ ہے کہ تراویح کی رکعت  20 سے کم نہیں ہے اسی لیے تراویح کی نماز بھی  20 پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے اور اس میں کسی مسلمان کو کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے

ان تمام الفاظوں سے یہ بات معلوم ہو گئی کہ تراویح کی نماز 20 رکعت ہے

مگر جو لوگ غیر مقلد ہیں اس مسئلے میں اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تراویح کی آٹھ رکعتیں ہیں اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ جس میں انہوں نے رمضان المبارک اور غیر رمضان کی نوافل کو  آٹھ  کی عدد سے منحصر کر دیا ہے۔بخاری154

مگر غیر مقلدین کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کیونکہ اس روایت کا تعلق تراویح کی نماز سے نہیں ہے بلکہ  تہجد سے ہے اس روایت میں ایک جگہ سے تین رکعت وتر پڑھنے کا ذکر ہے۔ حالانکہ غیر مقلدین  تراویح کی آٹھ رکعت کے  تو قائل ہیں   مگر ایک سلام سے وتر کی تین رکعت کے منکر ہے اس لیے جب وتر میں یہ روایت ان کے نزدیک حجت نہیں  تو تراویح کی رکعات میں حجت کیسی مانی جائے  گی

اور اگر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی اس حدیث کو تراویح سے ملا  یا جائے تو غیر مقلدین سے عرض ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کو سال بھر پڑھتے تھے آپ بھی سال بھر پڑھیں تو ہم جانے کے آپ اہل حدیث ہیں۔ (اردو )کی ایک کہاوت ہے کہتے ہیں کہ میٹھا ہے تو ہر کوئی چکتا ہے اگر کڑوا ہے تو اسے ہر کوئی تھوکتا ہےیہ ہی  مسئلہ تو اہل  حدیث کا ہے آسانی کو اختیار کرو مشکل کو چھوڑ دو

اگر اہل حدیث کہیں گے کہ نبی نے صرف تین دن یا دو دن رمضان میں جماعت سے نماز پڑھی ہے اس لیے ہم اس پر عمل کرتے ہیں تو سنیے اس حدیث پر عمل کرنا ہے تو تراویح جماعت کے ساتھ صرف دو یا تین دن پڑھو! پھر مسجد سے دفع ہو جاؤ تاکہ فتنہ ختم ہو جائے۔ اور وہ بھی مہینے کے آخری تاریخ میں تاکہ پورا رمضان  مسجد  میں سکون رہے


امام کی ذمہ داری

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *