قرأن پر اجرت لینا

قرآن پر اجرت لینا قرآن پر اجرت لینا

قرأن پر اجرت لینا

قرآن کریم کی تلاوت اور اس کا ختم مستقل عبادت ہے۔ اس کے ذریعے سے دنیا حاصل کرنا اور طے کرنا کہ میں قرآن شریف مکمل کرنے پر اجرت لوں گا ایسا لینا ہرگز جائز نہیں ہے

ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ،کہ قرآن پڑھا کرو ،اور اس کو کھانے کمانے کا ذریعہ ہرگز نہ بناؤ ،اور نہ اس سے مال و دولت کی کثرت حاصل کرو، اور نہ اس سے اعراض کرو، اور نہ اس میں غلوسے کام لو۔

ایک صحابی رسول دوسرے صحابی رسول کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جو شخص قرآن کریم کو کھانے کمانے کا ذریعہ بنائے گا، وہ قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر ہڈی ہی ہڈی ہو گی گوشت نہ ہوگا۔

ہمارے اصحاب اور سلف صالحین نے تراویح میں قرأت قرآن پر اجرت قبول نہیں کی۔ ایک صحابی رسول نے تراویح میں تمام قرآن مکمل کیا تو ان کو 200 درہم  پیش کیے گئے ،لیکن آپؓ نے صاف انکار کر دیا ،اور کہہ دیا کہ میں نے دنیا کمانے کے لیے قرآن نہیں پڑھایا ہوں

’’حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حسد  تو بس دو آدمیوں سے ہی کرنا جائز ہے۔ پہلا وہ شخص جسے اﷲ تعاليٰ نے قرآن   سکھایا تو وہ رات اور دن کے اوقات میں اس کی تلاوت (اور اس میں غور و فکر) کرتا ہے۔ اس کا پڑوسی اسے قرآن پڑھتے ہوئے سنتا ہے تو کہہ اٹھتا ہے کہ کاش مجھے بھی اس کی مثل قرآن عطا کیا جاتا تو میں بھی اسی طرح عمل کرتا جس طرح یہ کرتا ہے۔ اور دوسرا وہ شخص جسے اﷲ تعاليٰ نے مال بخشا ہے اور وہ اسے اﷲ تعاليٰ کی راہ میں صرف کرتا ہے۔ دوسرا شخص اسے دیکھ کر کہتا ہے کہ کاش مجھے بھی اتنا مال ملتا جتنا اسے ملا ہے تو میں بھی اسی طرح صرف کرتا جس طرح یہ کرتا ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

تمام اکابر نے یہ فتوی جاری کیا ہے کہ رمضان المبارک میں قرآن شریف مکمل کرنے پر اجرت لینا جائز نہیں ہے  ۔(ہر جگہ یہ فتوی قبول کیا گیا ہے)

مگر بعض جگہ امامت اور تعلیم پر قیاس کرتے ہوئے تراویح میں ختم قرآن کی اجرت لینے جائز کہاں گیا ہے ۔لیکن یہ قیاس درست نہیں ہے۔

کیوں کہ امامت اور تعلیم ایسی ضرورتیں ہیں جن کا نظم نہ ہونے سے شریعت میں رکاوٹ آسکتی ہے ۔جبکہ تراویح میں ختم قرآن اس درجے کی ضرورت نہیں ہے۔

اگر کسی حفاظ کو اجرت دینے کا رواج ہے ،وہاں دینے والوں کی نظر میں اس کی کوئی قدر و خدمت نہیں رہتی ،اور حفاظ کی بے وقتی دراصل دین کی بے وقتی ہے اسی لیے ضروری ہے کہ ہم تراویح میں لین دین کی وبا پر روک لگائیں ۔۔اور ناجائز ذریعے آمدنی چھوڑ کر حلال آمدنی حاصل کرنے کی کوشش کرے واضح رہے کہ جس طرح سننے والے کو اجرت دینا اور لینا دونوں حرام ہیں۔  اسی طرح لقمہ دینے والے سامع کو اجرت دینا وہ لینا بھی نہ جائز حرام ہے۔

(نوٹ امامت اور تعلیم میں اجرت لینا ہے اس لیے کہ یہ دین میں خلل پیدا کرتے ہیں ۔لیکن تراویح میں اجرت لینا اس لیے جائز نہیں ہے کہ تراویح میں ختم قرآن نہ کرنے سے دین میں کچھ بھی خلل پیدا نہیں ہوگا)

تراویح سنانے والے امام کا کرایہ اور مہمان داری کرنا کیسا؟

تراویح سنانے والے امام کا کرایہ دینا اور اس کی مہمان داری کرنا  شریعت میں بالکل جائز ہے اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور یہ اجرت میں داخل نہیں ہوگا۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم سب کو قرآن سے  اجرت لینےوالا نہ بنائے اور اس کی حفاظت کرنے والا ہم کو بنائے اور اس کے پڑھنے پر اللہ تعالی ہم کو خوب ثواب عطا فرمائے آمین


اسلام میں عورتوں کا مقام وہ مرتبہ 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *