یہ دو الفاظ ایک ساتھ بولے جاتے ہیں (تعلیم) (تربیت) تعلیم تو انسان مدارس سے یونیورسٹی دارالعلوم سے پا لیتا ہے، لیکن تربیت اس کو ان جگہوں سے نہیں ملتی اس کے لیے اسے بعض اشخاص کی خدمت میں رہنا پڑتا ہے’ جو انسانوں کو انسان بنانے کا کام کرتے ہیں۔۔ انسان کا دنیا میں آنا آسان لیکن صحیح معنوں میں انسان بن جانا بڑا مشکل کام ہے جو بنتا یا بناتا ہے وہ اپنا پتہ پاتا ہے” یہ کام انبیاء اکرام علیہ الصلاۃ والسلام کے ذمہ تھا جو دنیا میں انسان کو انسان بنانے کے لیے تشریف لائے تھے اور جب دنیا سے پردہ فرمانے لگے تو یہ کام ان کے وارث جو علماء صلحاء تھے ان کو دیا گیا اب قیامت تک ایسے افراد نورنسبت کو دل میں لیے ہوئے تربیت کا کام کرتے رہیں گے یہ لوگ دیکھنے میں ایک فرد نظر ائیں گے، مگر حقیقت میں ایک جماعت سے بھی زیادہ وزنی ہوں گے۔۔
جیسے کہ اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے۔۔
میرا ابراہیم تو ایک امت تھا’’ یہ قران مجید کی کتنی وزن دلیل ہے کہ دیکھنے میں تو فرد وایک ہے لیکن اللہ تعالی کے یہاں امت سے بھی زیادہ وزن رکھتے ہیں۔۔
زبان سے نکلے الفاظ کی اہمیت
غورو فکر کیجیے کہ جب کوئی کافر کلمہ پڑھتا ہے اس کو کوئی بھاگا دوڑ یا ورزش کرنا نہیں پڑتا، بلکہ صرف اپنی زبان سے کلمے کے دو الفاظ کہنے پڑتے ہیں جن کے ادا کرنے سے پہلے وہ کافر تھا کہنے کے بعد مسلمان بن جاتا ہے پہلے اللہ کا دشمن تھا اب اللہ کے دوستوں میں شامل ہو جاتا ہے پہلے شیطان کا بندہ تھا اب رحمان کا بندہ بن جاتا ہے”سو سال کے بھی گناہ ہوں گے پروردگار عالم اس کے سو سال کے گناہ معاف فرما دیں گا، تو معلوم یہ ہوا کہ زبان سے نکلے الفاظ کے بعد اس کی زندگی کا بالکل ہی رخ بدل جاتا ہے، چنانچہ زبان سے نکلے الفاظ کہ اللہ رب العزت کے یہاں بہت قدرو قیمت ہے۔
دو لفظوں کا اثر
جب مرد یا عورت کا نکاح ہوتا ہے اس نکاح کے وقت جب مرد قبول کرتا ہے تو اس وقت اس کو اپنی زبان سے فقط اتنے ہی الفاظ کہنے پڑتے ہیں کہ میں نے اس لڑکی کو اپنے نکاح میں قبول کیا یا اتنا کہہ دے کہ میں نے اسے قبول کیا اتنے چند الفاظ کہنے پر وہ لڑکی جو اس کے لیے غیر محرم تھی جس کی طرف دیکھنا اس کے لیے کبیرہ گناہ تھا، جس سے بات چیت کرنا اس کے لیے حرام تھا، وہ لڑکی اتنے الفاظ کہنے کے بعد اس کے لیے حرام نہیں بنتی بلکہ شریکئہ حیات بن جاتی ہے اب یہ اس کے ساتھ پوری زندگی گزارتا ہے تو سوچنئے کے نکاح کے وقت فقط چند الفاظ کے بولنے پر دو انسانوں میں کتنی جدائیاں تھیں اب وہ اتنا عریب ہو گئے کہنے کو تو جسم دو مگر ان دونوں کے جسم ایک جیسے ہیں یہ خوشی اور غمی کے ساتھ بن جاتے ہیں تو اللہ رب العزت کے یہاں زبان سے نکلنے ہوئے الفاظ اتنے اہمیت رکھتے ہیں کہ جس طرح چند الفاظ سے اس لڑکی اور لڑکے کے درمیان کے فاصلوں کو سمیٹ کر رکھ دیا، اسی طرح اگر کوئی مرد کسی وقت اپنی بیوی کو طلاق کے الفاظ کہہ دیتا ہے تو دو الفاظ کے زبان سے نکلنے پر وہ عورت جو اس کے شریکئہ حیات تھی اس کے بچوں کی ماں تھی۔۔ اس کے دکھ درد کی ساتھی تھی اب اس کے لیے اجنبی بن گئی وہ پھر اس کے لیے نہ محرم بن گئی تو نکاح اور طلاق کے لیے چند الفاظ سے انسان کی زندگی میں کتنی تبدیلیاں آجاجاتی ہے۔۔
فکر کرنے کی ضرورت
اس سے اندازہ لگانے کی ضرورت ہے کہ انسان کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ اللہ رب العزت کے یہاں کتنا وزن رکھتے ہیں اور ہم ہیں کہ زبان سے الفاظ نکال لے ہی چلے جاتے ہیں اور احساس بھی نہیں رکھتے کہ ان الفاظ کا کیا مطلب ہے اور دوسرے پر اس کا کیا اثر مرتب ہو رہے ہیں کیا ہم کسی دوسرے کو تکلیف تو نہیں پہنچا رہے ہیں اللہ کی کس مخلوق کا دل تو نہیں جلا رہے اور کرنا چاہیے کہ ہم اپنی زبان سے ایسے کلمات تو نہیں نکال رہے ہیں جو کلمہ کفر کہلاتے ہیں۔۔ اسی لیے اسلئےعلماء کے یہاں زبان کے صحیح استعمال کی مستقل محنت کروائی جاتی ہے۔۔