اماں بھائی کب مرے گا؟

اماں بھائی کب مرے گا؟ اماں بھائی کب مرے گا؟

اماں بھائی کب مرے گا؟

کچھ عرصہ ہوا ایک طرف افسانہ پڑا تھا۔ یہ دراصل میاں بیوی اور تین بچوں پر مشتمل گھرانے کی کہانی تھی ۔جو جیسے تیسے زندگی گھسیٹ رہا تھا ۔جو جمع  پونجی تھی وہ گھر کے سربراہ کے علاج معالج پر لگ  چکی تھی – مگر وہ اب بھی چار پائی سے لگا ہوا تھا ۔آخر اسی حالت میں ایک دن بچوں کو یتیم کر گیا۔رواج کے مطابق تین روز تک پڑوسی سے کھانا آتا رہا ۔چوتھے روز بھی وہ مصیبت کا مارا گھرانہ  کھانے  کا منتظر رہا ،مگر لوگ اپنے اپنے کام دھندوں میں لگ چکے تھے۔  کسی نے بھی اس گھر کی طرف توجہ نہیں دی ۔بچے بار بار باہر نکل کر سامنے والے سفید مکان کی چمنی سے نکلنے والے دھوئیں کو دیکھتے وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے لیے کھانا تیار ہو رہا ہے، جب بھی قدموں کی چاپ آتی انہیں لگتا کہ کوئی کھانے کی تھالی اٹھائے آ رہا ہے۔ مگر کسی نے بھی ان کے دروازے پر دستک نہ دی۔ ماں تو پھر ماں ہوتی ہے۔اس نے گھر سے کچھ روٹی کے ٹکڑے ڈھونڈ نکالے ان ٹکڑوں سے بچوں کو بہلا پھسلا کر سلا دیا، اگلے روز پھر بھوک سامنے کھڑی تھی ،گھر میں تھا ہی کیا جسے بیچا جاتا ۔پھر بھی کافی دیر کی تلاش کے بعد دو چار چیزیں نکل آئی جنہیں   کباڑے  فروخت  کر کے دو چار وقت کے کھانے کا انتظام ہو گیا ۔جب یہ پیسے بھی ختم ہو گئے تو پھر جان  کے لال پڑ گئے۔   بھوک سے نڈر ھال بچوں کا چہرہ ماں سے نہ دیکھا گیا۔ تو ساتوں روز بیوہ ماں خود بڑی سی چادر  کر لپیٹ کر محلے کی پر چون کی دکان پر جا کھڑی ہوئی۔ دکاندار دوسرے گاہکوں سے فارغ ہو کر اس کی طرف متوجہ ہوا خاتون ادھار پر کچھ راشن مانگا تو دکاندار نے صاف صاف انکار کر دیا اور دو چار باتیں سنا دی اور اسے خالی ہاتھ گھر لوٹنا پڑا

ایک تو باپ کی جدائی کا صدمہ اور اوپر سے مسلسل فاقہ، اٹھ سالہ بیٹے کی ہمت جواب  دے گئی اور وہ  بیماری  میں مبتلا ہو کر چار پائی پر پڑ گیا، پیسہ کہاں سے آئے گا۔ کھانے کو لقمہ نہیں تھا ۔چاروں گھر کے ایک کونے میں دبکے پڑے تھے۔ماں بخار سے آگ بنے بیٹے کے سر پر پانی کی پٹیاں رکھ رہی تھی، جبکہ پانچ سالہ بہن اپنے ننھے منے ہاتھوں سے بھائی کے پاؤں دبا رہی تھی ،اچانک وہ اٹھی ماں کے پاس آئی اور کان سے منہ لگا کر بولی ۔۔۔

اماں بھائی کب مرے گا ؟

ماں کے دل پر تو گویا خنجر چل گیا تڑپ کر اسے سینے سے لپیٹ لیا اور پوچھا میری بچی تم یہ کیا کہہ رہی ہو۔ بچی معصومیت سے بولی !

ہاں ،اماں بھائی مرے گا تو کھانا آئے گا نا!

اگر ہم اپنے پاس پڑوسی میں نظر دوڑائیں تم اس طرح کی چھوڑ گئی کہانیاں بکھری نظر آئے گی ۔بہت معذرت کے ساتھ کہہ رہا ہوں ہمارا معاشرہ مردہ پرست ہو چکا ہے۔ زندگی میں کوئی نہیں پوچھتا ۔مگر دم نکلتے وقت ہوٹوں پر دیسی گھی لگا دیا جاتا ہے تاکہ لوگ   سمجھیں بڑے میاں دیسی گھی کھاتے کھاتے مرے ہیں۔

غالبا کسی نے لکھا ہے ،کہ ایک بستی میں کوئی بھوکا شخص آگیا لوگوں سے کچھ کھانے کو مانگتا رہا ،مگر کسی نے کچھ نہیں دیا۔ بیچارہ  رات کو ایک دکان کے باہر فٹ پتہ پر پڑ گیا ۔صبح آکر لوگوں نے دیکھا تو وہ مر چکا تھا۔،،  اب،، اہل ایمان کا جذبہ ایمان ،،بیدار ہوا بازار میں چندہ کیا گیا ۔اور مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے  کفن دفن کا بندوبست ہو رہا تھا  ۔یہ منظر دیکھ کر ایک صاحب نے کہا  اسے چند لقمے دیتے تو یوں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر نا مرتا

کیا ہمارا جذبہ ایمانی صرف مردوں کے لیے رہ گیا ؟

(اپنے ارد گرد موجود زندوں کا خیال رکھے)


نماز تراویح دور نبوت اور دور صحابہ میں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *