ہم کس راستے پر چل رہے ہیں؟
ہم کس راستے پر چل رہے ہیں؟
ہم مومن ہیں اور ہمارے اوپر صرف رمضان میں ہی نہیں سال بھر گناہوں سے بچنا ضروری ہے، اس ماہ مقدس میں زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنے کی جلد بازی میں جانے انجانے میں ہم اپنے گناہوں میں اضافہ کر ڈالتے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ اس ماہ میں ستر گنا ثواب ہے، ہم عام دنوں میں دین کی اتنی خلاف ورزی نہیں کرتے، قران کی اتنی بے حرمتی نہیں کرتے، جتنا رمضان میں اس کی حرمت کو تار- تار کرتے ہیں، رمضان میں ہم دکھاوے کی چیز زیادہ کرتے ہیں ہم ایک نئی چیز ایجاد کردی تین دن، چھ دن، کی کمر شیل تراویح جسے حفاظ قرآن کا احترام بھی پامال ہو رہا ہے۔۔ ہم اس پر نظر ثانی کرنے کو امادہ نہیں ہے کہ ہم اپنی سہولت کے لیے اسلام کے اندر ایک نیا سسٹم نافذ کر دیا۔۔۔۔
تین دن، چھ دن، کی کمرشیل تراویح اس لیے پڑھتے ہیں سنتے ہیں تاکہ قران کی آواز صرف کانوں میں سنائی پڑجائے دو تین دہائی سے اس نئی روایت کو کچھ لوگوں نے عام کر ڈالی ہے، عبادت میں اجلت یہ رسم ادائیگی کے لیے کوئی جگہ نہیں خشوع اور خضوع ضروری ہے۔۔۔
ہم ایک بار اپنی اوپر نظر ڈالنی چاہیے کہ ہم کیا کر رہے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دین پر عمل کرنے کا جو حکم دیا ہم اس پر عمل پیرا ہیں یا اپنے طریقے اپنے سلیق سے اسلام پر چل رہے ہیں؟
ہم قران کی جو تراویح سن رہے ہیں قران کو ہم سمجھ بھی رہے ہیں زیادہ تر حفاظ صاحب کو قران کا معنی مفہوم نہیں معلوم ہے۔۔
تیسوں تراویح پڑھ سکتے ہیں پڑھ لیجیے بہت اچھی بات ہے نہیں پڑھ سکتے ہیں تو اپنی سہولت کے خاطر قران کی بے حرمتی تو نہ کیجئے قران کی بے حرمتی کرنے کا اختیار اللہ نے ہمیں نہیں دیا ہے، ہم تین روز چھ روز تراویح اپنے جسم کو اذیت دے کر پورا کرتے ہیں حافظ صاحب کیا پڑھ رہے ہیں معنی تو بہت دور کی بات مقتدی کو کوئی سو رہا تک سمجھ میں نہیں اتا ہم کو قران سمجھ کر پڑھنا ہے اور یہ تب ممکن ہے جب ہم اسے اپنی زبان میں نہ سمجھ لیں ۔۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے 20 رکعت کی تراویح اس لیے مقرر کی تھی کہ لوگ مختلف حصوں میں الگ الگ پڑھ رہے تھے تو انہوں نے سب کو جماعت میں قران سننے کے لیے جمع کیا کیونکہ رمضان میں قران سننے کا 70 گنا ثواب ہے لیکن ان کی مادری زبان عربی تھی ہمارے لیے یہ تب فائدہ مند ہے جب قران کو سمجھ کر پڑھیں۔۔
اللہ رحم کرے” علماء سو اج شکلا مسلمان ہو گئے ہیں اور ان کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ علماء حق اور علماء سو میں فرق کرنا مشکل ہو گیا علماء سو مذہبی تاجر ہو گئے ہیں، مختلف انداز میں اسلام کو ماننے کا طریقہ اور سلیقہ جو علماء سونے مسلک کی شکل میں ہمارے درمیان نافذ کر دیا ہے جب تک ہم اس مسلک کے فتنے سے دور نہیں ہوں گے دین اور شریعت کو ہم نہیں سمجھ پائیں گے۔۔
ہم صرف ایک اللہ، ایک رسول، ایک قران کے ماننے والے ہیں، تمام صحابہ کرام تمام خلفائے راشدین تمام اولیاء کرام کا مطالعہ کرے تو اندازہ ہوگا کہ زیادہ تر چیزیں ہم من گھڑت اور دکھاوے کے لیے کر رہے ہیں۔۔
قران میں ہر وہ طریقہ ہے جو ہماری ہدایت کا ذریعہ ہے۔۔ صبر کا طریقہ ہے، زندگی جینے کا طریقہ ہے، اتحاد کا طریقہ ہے، اج ہم دنیا کے ظالم قوموں میں سے ایک ہے ظالم وہ نہیں ہوتا جو ظلم کرتا ہے اس سے بڑا ظالم وہ ہوتا ہے جو ظلم سہتا ہے۔۔
یقین جانیے’’’ اس رمضان میں ہمیں موقع ملا ہے گناہوں سے بچنے رمضان کا احترام کرے اپنے جسم اور ذہن کو پاک رکھے تاجر رمضان میں منافع بڑھانے سے پرہیز کرے, توبہ کا دروازہ کھلا ہے توبہ کر لے, پتہ نہیں اگلے سال کا رمضان ہمیں ملے گا یا نہیں؟ اپنی ذات کا تجزیہ کریں تنقید سے بچے دوسروں کی تنقید نہ کریں۔۔ ہم دوسروں کے بچوں پر تنقید کرنے کے بجائے اپنے بچوں کی تعلیم کے ساتھ تربیت پر زیادہ توجہ دیں کہ ہم دنیاوی تعلیم دے رہے ہیں لیکن ساتھ میں دینیات پڑھا رہے ہیں یا نہیں ہم اس دین کی طرف کتنا توجہ دلا پا رہے ہیں؟ اگر ہم دین سے خود نہ اشنا ہے تو بہتر ہے کہ ایک بار خود اسلام کا مطالعہ کریں اور پھر اپنی نئی نسل کو نصیحت کریں۔۔ یہ افضل مہینہ ہے جس میں دوسروں کے کردار میں جھانکنے کے بجائے اپنے کردار کا احتساب کرے اپنے اعمال پر توجہ دیں دوسروں کے عمل پر نہ جائے دوسرا کیا کر رہے ہیں اللہ ان سے ان کا حساب لے گا ہم یہ جانتے ہوئے کہ میرا جسم میری انکھ میری ناک میرا کان میرا ہاتھ میرا پاؤں سب قیامت کے دن میری روح کے خلاف گواہی دے گا اور سچی گواہی دے گا۔۔ ہم محاسب کریں کہ ہم کس راستے پر چل رہے ہیں۔۔
=======================
Post Views: 46