Rasol Akarm Sali ad aliya Wasalm Ka Hasan Salok.
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن سلوک
انسان اپنے عزیزوں رشتہ داروں تعلق داروں اور دوست احباب سے تو حسن سلوک کرتا ہے ۔۔
مگر اپنی کسی مخالف اور جانی دشمن سے تو شاہد ہی کوئی حسن سلوک کرے مگر جن کا ہم کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوئے اور جن کی غلامی پر ہم کو ناز ہے وہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن سلوک مخالفین اور ظالم دشمنوں تک کے لیے بھی اس قدر وسیع اور عام ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے اس سلسلے میں اپ کے محاسن اور کمالات اور عفو عام اور حسن سلوک کے چند ایمان افروز واقعات قارئین کی نذر ہے۔۔۔
ایک بار ایک یہودی اور ایک مسلمان کا مقدمہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش ہوا ؛؛ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذہب اور عقیدے کا لحاظ کیے بغیر حقائق کی بنا پر یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا ‘ عدل ‘ وہ انصاف ‘ پر زور دیتے ہوئے اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قران کریم کی یہ تعلیم پیش فرمائی ہے کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر امدہ نہ کرے کہ تم بے انصافی سے کام لو ہمیشہ عدل و انصاف کو قائم کرو یہی تقوی کے زیادہ قریب ہے ۔۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ سے معاہدہ کیا تھا کہ اگر مکہ سے کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینے حضور کے پاس پہنچے گا تو اسے واپس کیا جائے گا اور اگر کوئی مسلمان مدینے سے مکہ چلا جائے گا تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا یہ شرط مسلمانوں کو اس وجہ سے سخت ناگوار تھی کہ بہت سے اسلام قبول کرنے والے مسلمانوں کو مکہ میں دکھ دیا جاتا تھا اور وہ مجبور تھے کہ مکہ سے ہجرت کر کے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ ا جائے ایسے ہی لوگ لوگوں میں دو صحابی ابوجندل اور سہیل بھی شامل تھے؛
جن کو مکہ میں اسلام قبول کرنے کی وجہ سے سخت تکالیف دی جاتی تھی وہ مدینہ اگئے تھے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس بات کا علم ہوا تو اپ نے دشمن قوم سے بھی معاہدے کیا اور اس حد تک پابندی کی کہ ابو جندل کو واپس مکه بھجوا دیا حالانکہ انہیں وہاں سخت اذیتیں دی جاتی تھی ‘ فتح خیبر کے موقع پر مفتوح یہودیوں نے درخواست کی کہ ہمیں یہاں سے بے دخل نہ کی جائے ہم نصف پیداوار مسلمانوں کے حوالے کر دیا کریں گے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست کو بھی قبول فرما لیا مگر افسوس یہودیوں نے اس احسان کے باوجود حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سلوک کیا ہے کہ ایک یہودی عورت نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر ملا کر گوشت کھلا کر شہید کرنے کی کوشش کی ‘ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس خوفناک سازش کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو طلب فرمایا ‘ تو اس نے اقرار کیا کہ بے شک میری نیت اپ کو قتل کرنا تھا ۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مگر اللہ کی منشا نہ تھی کہ تیرے ارزو پورے ہو جائے ‘ صحابہ نے اس عورت کو قتل کرنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس سے پوچھا کہ تمہیں اس ناپسندیدہ فعل پر کس بات نے امدہ کیا ‘تو اس نے جواب دیا کہ میری قوم سے اپ کی لڑائی ہوئی تھی میرے دل میں ایا کہ اپ کو زہر دے دیتی ہوں اگر واقعی اپ نبی ہیں تو بچ جائیں گے ‘ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس کی یہ بات سنی تو اسے معاف فرما دیا ‘ جان لیوا دشمنوں کے ساتھ ایسا سلوک کرنا یقینا عفو کی روشن مثال ہے جو تاریخ میں کہیں اور نہیں مل سکتی ۔۔
جنگ خیبر میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا ایک اور عجیب اور ایمان افروز واقعہ بھی پایا جاتا ہے ‘ ابھی محاصرہ جاری تھا کہ ایک یہودی رئیس کا گلہ بان جو اس کی بکریاں چرایا کرتا تھا مسلمان ہو گیا مسلمان ہونے کے بعد اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب میں ان لوگوں کے پاس تو نہیں جا سکتا اور یہ بکریاں اس یہودی رئیس کی امانت ہے’ اب میں کیا کروں؟ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بکریوں کا منہ تم قلعے کی طرف پھیر دو اور ان کو پیچھے سے ہانک دو؛ اللہ خود ان کو مالک کے پاس پہنچا دے گا اس نے ایسا ہی کیا اور بکریاں قلعے کے پاس چلی گئی جہاں سے قلعے والوں نے ان کو اندر داخل کر لیا اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر امانت و دیانت کے اصولوں پر عمل فرمایا کرتے تھے کیا اج کل کے نام نہاد مہذب زمانے میں بھی اس کی کوئی مثال مل سکتی ہے کہ دشمن کے جانور ہاتھ ا جائے اور پھر انہیں واپس لوٹا دیا جائے ۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ میں مشغول تھے دشمنوں نے مسلمانوں کی صفوں میں کچھ بدنظمی پائی اور ایک عربی تلوار سونت کر اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر اگیا اور کہنے لگا یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں کون بچا سکتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ یہ سن کر اس پر ایسی دہشت طاری ہوئی کہ تلوار اس کے ہاتھ سے چھٹ کر گر گئی اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فورا اس سے اٹھا لیا اور فرمایا اب تجھے کون بچا سکتا ہے وہ کافر بولا اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اسیر کر لیا؛ اب دوسرے قید کرنے والوں سے بہتر سلوک مجھ سے کیجیے اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف کر کے رہا فرما دیا ‘’ جب وہ اپنے لوگوں میں واپس ایا تو کہنے لگا میں اس وقت دنیا کے سب سے عظیم آدمی کے پاس سے ا رہا ہوں جس کیسی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آزار پہنچایا اگرچہ اپ ذی مقدرت تھے تا ہم اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف فرما دیا اپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ حلیم اور معاف کرنے والے تھے باوجود دوسروں پر ہمیشہ رحم فرما تے ۔۔
ایک موقع پر ایک یہودی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرض کی ادائی میں سختی کرتے ہوئے گستاخی کے کلمات کہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے میں چار ڈال کر بل دیا اپ صلی اللہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رگیں ابھر ائی حضرت عمر اس موقع پر موجود تھے وہ یہ صورتحال دیکھ کر بے قابو ہو گیا اور انہوں نے بڑے سختی سے یہودی کو ڈانٹا اور کہا او خبیث اگر اپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں تیرا سر اڑا دیتا رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر کو نرمی سے فرمایا ہے ‘’؛عمر تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا تمہیں چاہیے تھا کہ اس سے نرمی سے سمجھاتے کیونکہ ابھی اس کے قرض کی ادائیگی کی معیاد میں تین دن باقی ہے اور تمہیں مجھے یہ کہنا چاہیے تھا کہ قرض وقت پر ادا کرو اس کے بعد حضرت عمر کو حکم دیا کہ تم میری طرف سے اس کا قرض بے باق کر دو اور بیس صاع کھجور مزید اپنی طرف سے اس سخت کلامی کے تاوان کےطور پر اسے ادا کرو یہ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار ہے کہ کسی طرح اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دشمنوں سے معاملہ فرمایا ۔۔
کعب بن زبیر جو عرب کے مشہور شاعر تھا اور وہ ہمیشہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم علیہ السلام کی مخالفت میں شاعر کہا کرتا اور لوگوں کو اشتعال دلایا کرتا تھا اس کے دل کو اللہ نے بدل دیا اسے بھی اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاف فرما دیا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں ایک مشہور قصیدہ لے کر حاضر ہوئے اور اسلام قبول کر لیا
=============================