زکوۃ کی نیت کس طرح کرے

قرآن و حدیث میں زکوۃ ادا نہ کرنے والوں کے لیے بہت وعیدیں آئی ہیں، چناں چہ ارشادِ خداوندی ہے: قرآن و حدیث میں زکوۃ ادا نہ کرنے والوں کے لیے بہت وعیدیں آئی ہیں، چناں چہ ارشادِ خداوندی ہے:

زکوۃ کی نیت کس طرح کرے

قرآن و حدیث میں زکوۃ ادا نہ کرنے والوں کے لیے بہت وعیدیں آئی ہیں، چناں چہ ارشادِ خداوندی ہے:

“يَوْمَ يُحْمى عَلَيْها فِي نارِ جَهَنَّمَ ‌فَتُكْوى ‌بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا ما كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ.” (التوبة، آيت نمبر 35)

يعني: جو لوگ زکاة ادا نہیں کرتے اُن کے مال کو جہنم کی آگ میں گرم کر کے اِس سے اُن کی پیشانیوں، پہلووٴں اور پیٹھوں کو داغاجائے گا۔

دوسری جگہ ارشاد ہے:

“‌سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيامَةِ.” (آلِ عمران، آیت نمبر 180)

یعنی: ایسے شخص کے مال کو طوق بنا کے اُس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔

بخاري شريف ميں هے:

“عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” من آتاه الله مالا، فلم يؤد زكاته مثل له ماله يوم القيامة شجاعا أقرع له زبيبتان يطوقه يوم القيامة، ثم يأخذ بلهزمتيه – يعني بشدقيه – ثم يقول أنا مالك أنا كنزك، ثم تلا: (لا يحسبن الذين يبخلون) ” الآية.”

(کتاب الزکوۃ، باب اثم مانع الزکوۃ، جلد:2، صفحہ: 106، طبع: سلطانیہ)

يعني: ایسے شخص کا مال قیامت کے دن ایسے زہریلے ناگ کی شکل میں آئے گا ،جس کے سر کے بال جھڑ چکے ہوں گے ، اور اس کی آنکھوں کے اوپر دو سفید نقطے ہوں گے،پھر وہ سانپ اُس کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا، پھر وہ اس کی دونوں باچھیں پکڑے گا(اور کاٹے گا) اور کہے گا کہ میں تیرا ما ل ہوں ، میں تیرا جمع کیاہوا خزانہ ہوں۔

مسلم شریف میں ہے:

“قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما من صاحب ذهب ولا فضة، لا يؤدي منها حقها، إلا إذا كان يوم القيامة، صفحت له صفائح من نار، فأحمي عليها في نار جهنم، فيكوى بها جنبه وجبينه وظهره …”

(کتاب الزکوۃ، باب اثم مانع الزکوۃ، جلد:2، صفحہ: 680، طبع: مطبعة عيسى البابي الحلبي)

یعنی: ایسے شخص کے لیے آگ کی چٹانیں بچھائی جائیں گی،اور اُن سے ایسے شخص کے پہلو ، پیشانی اور سینہ کو داغا جائے گا۔

زکوۃ کی نیت کس طرح کرے

یعنی زکوۃ کا مال فقیر کو دیتے وقت زکوۃ کی نیت کرنا یعنی دل میں یہ ارادہ کرنا کہ میرے اوپر جس قدر مال کا دینا فرض تھا محض اللہ تعالی کی خوشنودی کے لیے دیتا ہوں اگر کوئی زکوۃ دینے کے بعد نیت کرے اور وہ مال فقیر یعنی جس کو زکوۃ کا مال دیا گیا ہے اب تک اس کے پاس موجود ہو تو یہ نیت اس کی صحیح ہو جائے گی اگر یہ مال  اس فقیر نے جس کو ہم نے دیا ہے اگر اس نے اس کو خرچ کر دیا تو یہ نیت درست نہیں  اور پھر اس کو زکوۃ دوبارہ دینی ہوگی اگر کوئی شخص اپنے مال میں سے زکوۃ کا مال الگ کر لے اور الگ کرتے وقت زکوۃ کی نیت دل میں ہو تو کافی ہے اگرچہ فقیر کو دیتے وقت نیت بھی نہ کرے

کچھ تفصیل

ایک شخص کے  ذمہ اتنا قرض ہے جو اس کے پورے مال کو گھیرے ہوئے ہے تو ایسے شخص پر بھی زکوۃ فرض نہیں ہے اور اگر مقروض کے پاس مال خرچ سے زیادہ ہے اور وہ نصاب  شرعی کے  بقدر ہے تو اس پر زکوۃ فرض ہے

زکوۃ فرض ہونے کے لیے شرط یہ بھی ہے کہ وہ مال اپنی اصل ضرورت سے زیادہ ہو جو مال اپنی اصل ضرورت کے لیے ہو اس پر زکوۃ فرض نہیں ہے جیسا کہ پہننے کے کپڑے رہنے کا گھر اور خدمت کے غلام پر اور سواری کے گھوڑوں پر اور استعمال ہونے والے ہتھیار پر اور اسی طرح گھر میں استعمال ہونے والے سامانوں پر زکوۃ فرض نہیں ہوتی

اگر کسی نے اپنا سارا مال خیرات کر دیا مگر زکوۃ کی نیت نہیں کی تو اس کے  ذمہ سے زکوۃ ساقط ہو جائے گی یا  یعنی  قیقس کا تقاضہ تو یہی ہے کہ نیت کے بغیر زکوۃ ادا نہیں ہوگی  چونکہ اب اس کے پاس کوئی مالیت باقی نہیں رہی اسی لیے اس صورت میں زکوۃ اس کےذمہ سے  ساقط ہو گئی۔(فتوی عالمگیر


زکوۃ کا نصاب

Hazrat Adam (peace be upon him) and Satan.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *