زکوۃ کس کو دینا ہے کس کو نہیں ؟
تفصیل کے ساتھ لکھا گیا ہے
حق تعالی نے مستحقین زکوۃ کو آٹھ قسموں کے لوگوں میں منحصر فرما دیا ہے جن کی تفصیل قرأن مجید میں موجود ہے جن کے اندر اصل قرأن کی یہ آیت ہے
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِؕ-فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(60)
ترجمہ: کنزالایمان
زکوٰۃ تو انہیں لوگوں کے لیے ہے (۱۳۷) محتاج اور نرے نادار اور جو اسے تحصیل(وصول ) کرکے لائیں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے اور گردنیں چھوڑانے میں اور قرضداروں کو اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کو یہ ٹھہرایا ہوا ہے اللہ کا اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔
ان آٹھ قسموں میں سے ایک قسم مُؤَلَّفَۃُ الْقُلُوْبْ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے اِجماع کی وجہ سے ساقط ہو گئی۔
(علامہ بنوری نے ان کی چھ قسمیں لکھی ہیں)
ایک ۔وہ کفار جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم زکوۃ اس لیے دیتے تھے کہ وہ ہم سے قریب ہو کر مسلمان ہو جائے۔
نمبر دو ۔وہ کافر جن کو زکوۃ اس لیے دی جاتی تھی کہ ان کے شر سے محفوظ رہے۔
نمبر تین۔ وہ مسلمان جن کے اسلام میں کمزوری تھی کہ ان کے ایمان میں پختگی مضبوطی آجائے۔
(مزید تفصیلات کے لیے معارف ج 5 ،ص 282 دیکھیےۃ)
مُؤَلَّفَۃُ الْقُلُوْبْ کا مصرف زکوۃ ہونا ابھی بھی باقی ہے یا ان کا حصہ ساقط ہو گیا ؟
ائمہ کے درمیان یہ مسئلہ اختلافی ہے احناف کے نزدیک ان کا حصہ مطلقا ساقط ہو گیا ہے ۔ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں صحابہ کے اتفاق سے ، اس لیے کہ جس ضرورت اور مصلحت سے ان کو دیا جاتا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد باقی نہیں رہی، اللہ نے اسلام کو غلبہ و شوکت عطا فرما دیا ،اسی لیے مصارف زکوۃ سات باقی رہ گئے(بدائع الصنائع ج :2،ص :153)
(مصارف زکوۃ میں سے)
پہلی قسم فقیر ہے
دوسری قسم مسکین ہے
شافعی وحنا بلہ کے نزدیک فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس نقد مال یا کمائی کی آمدنی بالکل نہ ہو ،یا اگر ہو تو آدھا خرچ سے کم ہو جیسے کسی کی روز آنہ کے خرچ کی مقدار 10 روپے ہو اور کمائی چار روپے ہو۔
اور مسکین وہ شخص ہے جس کی آمدنی مکمل خرچ کے بقدر تو نہ ہو لیکن آدھا خرچ یا اس سے زیادہ حاصل ہو۔
احناف کے نزدیک فقیر وہ شخص ہے جو صاحب نصاب نہ ہو یا مالک نصاب تو ہو لیکن وہ مال غیر نامی ہو یا نامی بھی ہو لیکن اس کی ضرورت اصلیہ سے زائد نہ ہو
احناف کے نزدیک مسکین وہ شخص ہے جس کے پاس بالکل کوئی چیز نہ ہو(اوجز المسالک ج :3 ،ص: 226 )
تیسری قسم عاملین کی ہے
عاملین وہ لوگ ہیں جن کو امام المسلمین کی جانب سے زکوۃ وہ صدقات کی اصولی کے لیے مقرر کیا جائے ،ان کو زکوۃ کی رقم میں سے اتنا دیا جائے گا جو کافی ہو جائے جو کچھ ان کو دیا جاتا ہے ،وہ زکوۃ ہونے کی حیثیت سے نہیں ہے بلکہ حق الخدمت اور عمل کے معاوضہ کے طور پر دیا جاتا ہے ،اسی لیے عامل کو ہر حال میں دیا جاتا ہے مالدار ہو یا فقیر مصارف زکوۃ میں سے ہی ایک مصرف ایسا ہے کہ جس کو زکوۃ کا معاوضہ خدمت کے طور پر دیا جاتا ہے۔۔(بدائع الصنائع ج:2 ،ص:151)
چوتھی قسم وفی الرقاب ہے
احناف کے نزدیک اس کا مصداق مکاتبین ہے زکوۃ کی رقم سے کاتبین کا تعاون کیا جائے تاکہ وہ بدل کتابت اداء کر کے اپنی گردنوں کو غلامی سے آزاد کر لے۔۔ (بدائع الصنائع ج:2 ص:)153
پانچویں قسم غارم کی ہے
غارم سے مراد وہ مقروض ہے جس کے پاس قرض کی ادائیگی کے بعد کچھ نہ بچتا ہو، اور اگر بچتا ہو تووہ نصاب کے بقدر نہ ہو اسی طرح وہ شخص جس کا قرض لوگوں کے ذمہ ہو اور وہ ان سے اصول کرنے پر قادر نہ ہو ایسے شخص کو بھی زکوۃ دی جا سکتی ہے ۔(شامی ج :2،ص :83 ، اوجزالمسالک ج:3،ص: 226 )
چھٹی قسم فی سبیل اللہ ہے
اس کا مصداق احناف کے نزدیک وہ شخص ہے جو جہاد میں جانا چاہتا ہو لیکن وہ سامان جہاد کے مہیا کرنے پر قادر نہ ہونے کی وجہ سے مجاہدین کی جماعت سے منقطع ہو رہا ہے تو ایسے شخص کا زکوۃ کی رقم سے تعاون کیا جا سکتا ہے۔(بدائع الصنائع ج :2،ص؛155)
ائمہ ثلاثہ کہ نزدیک اس سے مراد مطلقا مجاہدین ہیں فقیر ہونا شرط نہیں ہے لہذا یہ لوگ مالدار ہونے کے باوجود سامان جہاد وغیرہ کی تیاری کے لیے بقدر ضرورت زکوۃ لے سکتے ہیں۔(ایضاح النوادرج :2:ص۔62 )
ساتویں قسم ابن السبیل ہے
ابن السبیل سے مراد وہ مسافر ہے جس کے پاس سفر میں مال نہ ہو اگرچہ وہ اپنے
وطن میں مالدار ہو ایسے شخص کو بھی زکوۃ لینا جائز ہے۔(نیل الاوطارج ۔4۔ص،182 ۔بدائع الصنائع ج۔2۔ص۔155 )
صرف یہ سات قسم کے لوگ احناف کے نزدیک زکوۃ کا مصرف ہے مالک کو اختیار ہے اگر ان قسموں میں سے ہر ایک کو دے تب بھی جائز ہے اور اگر مکمل زکوۃ ایک ہی قسم کے لوگوں کو دے یہ بھی جائز ہے(بدائع الصنائع ج۔ 2۔ص۔156 )
مگر یہ بات ذہن نشین کر لے کہ اگر ایک فقیر کو مقدار نصاب سے زیادہ دیا جائے تو زکوۃ کی رقم صاحب نصاب بن جائے گی تو اس طرح دینے سے زکوۃ ادا ہو جائے گی لیکن ایسا دینا مکروہ تحریمی ہے۔۔ کیوں کہ مقصد شریعت کے موافق نہیں ہے اسی لیے کہ زکوۃ سے فقیر کو مالدار بنانا مقصد نہیں ہے بلکہ پیٹ بھرنا مقصد ہے لیکن اگر فقیر مقروض ہےتو اس کو حساب سے زیادہ دینا مکروہ نہیں ہے، اس لیے کہ وہ اس سے مالدار نہ ہوگا بلکہ اپنا قرضہ ادا کرے گا۔
کافر اور مشرک کو صدقہ اور زکوۃ دینا جائز نہیں ہے زکوۃ صرف مسلمان کو ہی دینا چاہیے جمہور علماء کامتفق فیصلہ ہے۔
زکوۃ کی رقم مسجدوں کی تعمیر میں خرچ کرنا اور زکوۃ کی رقم سے میت کی دفن کو کفن تیار کرنا جائز نہیں ہے ۔کیوں کہ ادائیں گے ادائے زکوۃ کے لیے بلا عوض اور بلا خدمت فقیر کو مالک بنا دینا شرط ہے ۔اگر میت کا ولی زکوۃ کا مستحق ہو تو اس کو زکوۃ دے دے ۔اور اس زکوۃ سے اگر وہ میت کا دفن کفن کا انتظام کر لے تو کر سکتا ہے(کتاب الفقہ ۔ ج ۔1۔ص۔1014
اگر زکوۃ کے مال سے غلام یا باندی خرید کرآزاد کر دیا جائے، تو زکوۃ ادا نہ ہوگی کیونکہ زکوۃ کا رکن مالک بنانا ہے اور آزاد کرنے میں مالک کرنے کی معنی نہیں پائے جاتے ہیں۔
احناف کے نزدیک غنی کی ایک حد متعین ہے یعنی نصاب نامی کا مالک ہونا لہذا جو شخص صاحب نصاب ہوگا وہ ان کے نزدیک غنی ہیں اس کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہے ایسا ہی تمام صدقات واجبہ جیسے عشرہ کفارت صدقہ فطر دینا جائز نہیں۔
احناف کے نزدیک حکم یہ ہے کہ چند رشتہ داروں کے ساتھ پیدائش کا تعلق ہوانہیں زکوۃ نہیں دی جا سکتی ہے ۔جیسے اپنے ،ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی، اسی طرح بیٹے، پوتے،بیٹی، پوتی، نواسے نواسیاں ،اور میاں بیوی ایک دوسرے کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہے کیوں کہ شوہر بیوی کے منافع عام طور سے مشترک ہے، اور وہ دونوں ایک دوسرے کی چیزیں سے عموما استفادہ کرتے رہتے ہیں اسی لیے شوہر اور بیوی کا آپس میں ایک دوسرے کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہے۔
اپنے مکاتب کو زکوۃ دینا نہ جائز ہے
ایسے ہی اپنی غلام کو بھی زکوۃ دینا جائز نہیں ہے۔ مکاتب کی کمائی میں آقا کا حق ہوتا ہے ایسے ہی غلام کی کمائی اس کے آقا کے لیے ہوتی ہے چنانچہ ان کو زکوۃ دینا اپنے آپ کو زکوۃ دینا ہے اور اپنی مال کی زکوۃ خود اپنے آپ کو دینا جائز نہیں ہے۔
مالدار کے نابالغ بچے کو بھی زکوۃ دینا جائز نہیں ہے کیونکہ نابالغ اولاد اپنے ماں باپ کے مال کی وجہ سے مالدار شمار ہوتی ہے۔
بنی ہاشم کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہے ۔
البتہ ان کو نفلی خیرات کر سکتے ہیں عبدالمطلب کی 12 اولادیں تھیں ان 12 میں سے صرف چار کی اولاد کو مستثنی کر کے باقی آٹھ اولاد کو زکوۃ حلال ہے۔ اور چار اولاد جن کو الگ کیا گیا ہے ،وہ حضرت عبداللہ ،حضرت عباس، حضرت حارث ،اور ابو طالب کی اولاد ہیں ،اور ابو طالب کے تین لڑکوں کی نسل دنیا میں جاری ہے ،یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ،حضرت عقیل رضی اللہ تعالی عنہ ،اور حضرت جعفر رضی اللہ تعالی عنہ ،کی اولاد دنیا میں موجود ہے ۔عبدالمطلب کے مذکورہ چار اولادوں کی نسل کو ہاشمی کہتے ہیں
زکوۃ دینے والے نے کسی شخص کو زکوۃ کا مستحق سمجھ کر زکوۃ دے دی، بعد میں معلوم ہوا کہ جس کو زکوۃ دی گئی وہ زکوۃ کا مستحق نہیں ہے مثلا وہ مالدار ہے ،یا ہاشمی گھرانے سے اس کا تعلق ہے، یا کافر ہے، یا زکوۃ دینے والے کا باپ ہے ،یا اس کا بیٹا ہے ،تو ان تمام صورتوں میں طرفین کے نزدیک دوبارہ زکوۃ دینا لازم نہ ہوگا بلکہ جو دی تھی وہ کافی ہے ،(امام ابو یوسف کے نزدیک زکوۃ ادا نہ ہوگی بلکہ دوبارہ زکوۃ دینا لازم ہوگا) (بدائع الصنائع۔ج2 ص ۔163
مگر طرفین کا قول ہی مفتی بہ ہے۔
اگر کوئی شخص نصاب کے مقدار کا مالک ہو خواہ سونے ،چاندی، کا نصاب ہو یا جانوروں کا نصاب ہو، یا دوسرے سامان کا نصاب ہو، تو اس کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہے اگر کوئی شخص صحیح تندرست طاقتور کمانے کے لائق ہو مگر فقیر ہو تو اس کے لیے زکوۃ اور صدقہ حلال ہے یا نہیں اس بارے میں دو مذہب ہے۔
پہلا شافعی کے نزدیک ایسے شخص کے لیے زکوۃ و صدقہ حلال اور جائز نہیں ہے ۔(یعنی اس کو دینا جائز نہیں ہے)
احناف اور امام مالک کے نزدیک ایسے شخص کے لیے زکوۃ اور صدقات واجبہ جائز ہے، زکوۃ اور صدقہ واجبہ کے حلال ہونے کے لیے صرف فقیر ہونا شرط ہے، خواہ فقیر صحیح تندرست ہو یا معذور ہو یا آپاہچ ہو سب کے لیے درست ہے۔
(طحاوی ج۔1۔ص۔335
زکوۃ اپنے قریبی لوگوں کو دینا ضروری ہے مثلا بھائی ،بہن ،چچا کو، خالہ، مامو ،وغیرہ اگر مستحق ہو تو ان کو زکوۃ دے کیونکہ ان کو زکوۃ دینے سے دو ثواب ہم کو ملیں گے۔
پہلا ادائے زکوۃ کا ثواب ۔۔دوسرا صلہ رحمی کا ثواب
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو زکوۃ پابندی سے ادا کرنے والا بنائے
آمین
ماشاءاللہ بہت اچھا 👍