ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ کہیں ایک بہت لالچی اژدھا تھا، وہ پنیر، ٹماٹر، چاکلیٹ، ٹافیاں جلی، کریم، کیلے، کھاتا تھا۔۔۔ برے لڑکے اور اچھے بچیاں بھی کھایا جاتا تھا ایک دن چھوٹا سا برا لڑکا سیف اژدھا کے پاس آیا وہ دونوں ایک دوسرے کو گھورنے لگے اژدھا نے منہ کھول کر ایک شعلہ سیف کے طرف پھینکا تو سیف نے زبان نکال کر اسے چاٹا۔۔ اژدھا میں تمہیں کھا جاؤں گا’’ سیف یہ سن کر ہنسنے لگا اور بولا’’’ جاؤ جاؤ اگر تم مجھے کھاؤ گے تو میں تمہارے معدے میں پہنچ کر تمہیں وہ درد کروں گا کہ یاد رکھو گے۔۔۔
اژدھا کو بہت غصہ آیا، اس نے اپنی لمبی زبان منہ سے باہر نکالی۔۔۔ سیف کی طرف دوڑا اور لالچی طبیعت کی وجہ سے سیف کو نگل گیا، لیکن جب سیف اس کے پیٹ میں جا رہا تھا تو وہ قہقہے مار کر ہنس رہا تھا۔۔ اژدھا حیرت سے سوچنے لگا کہ آخر اتنی خطرناک جگہ پر سیف کو ہنسی کیوں آرہی ہے؟ پھر جلدی اسے اس کی وجہ معلوم ہو گئی۔۔۔۔۔ سیف کے جیب میں بارود کے پٹاخے اور آگ جلانے والے دو پتھر موجود تھے، اس کی جیب میں ہمیشہ ہی ایسی چیزیں پڑی ہوتی تھی، سیف نے دونوں پتھروں کو رگڑا تو آگ کے ننھے ننھے شعلے نکلے یہ شعلے بہت چھوٹے تھے مگر اژدھا چیخیں مارنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا پیٹ میرا پیٹ اف، اور وہ زور سے پیٹ کھینچنے لگا ادھر اس آگ کے ننھے شعلوں کی مدد سے۔ سیف نے دیکھا کہ بارودی پٹاخوں کو اگ کہاں لگانی ہے۔۔۔ اس نے فورا ان کو آگ لگا دی، ان بارودی پٹاخوں پر ایک منتر بھی پڑا ہوا تھا ان کو آگ لگانے سے ایک زوردار دھماکہ ہوا اور لالچی اژدھا چلانے لگا۔۔ اس دھماکے بعد اژدھا کے کھلے ہوئے منہ سے باہر نکل گیا، اور فورا محفوظ جگہ چلا گیا لیکن جادو کے پٹاخوں کا کم ابھی مکمل نہیں ہوا تھا، ان کا دھواں اژدھا کے سر کے چکر کاٹنے لگا ساتویں چکر پر منتر کا اثر ہوا اتنے بڑے جسم کا اژدھا ایک بے ضررسی مکھی میں تبدیل ہو گیا جسے بڑی مکھی کہتے ہیں’’ اور جس کی شکل اژدھا سے ملتی ہے اور وہ پھر اسمان میں اڑ گئی، رہا سیف وہ گھر کی طرف جا رہا تھا اور بے تحاشہ ہنس رہا تھا۔۔۔