جو شخص خلوص کے ساتھ رمضان کے اخری عشرہ کا اعتکاف کرتا ہے اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں، اور دو حج اور دو عمروں کا ثواب ملتا ہے.. نیز چالیس دن تک سرحد اسلام کے محافظ ہونے کا درجہ حاصل ہوتا ہے، جو چالیس دن تک سرحد اسلام کی حفاظت کرتا ہے اللہ تعالی اس کو گناہوں سے اس طرح پاک صاف کر دیتا ہے جیسا کہ نو مولود بچہ کے حال ہوتا ہے۔۔۔۔
اعتکاف کے شرعی معنی یہ ہے کہ عبادت کی نیت سے مسجد میں ٹھہر جائے پھر اگے مسئلہ یہ ہے کہ کونسی مسجد ضروری ہے؟ امام ابو حنیفہ رحمت اللہ تعالی علیہ کے نزدیک مسجد جماعت یعنی جس کے لیے امام اور مؤذن متعین ہو پانچ وقت کی نماز ادا ہوتی ہو یا نہ ہوتی ہو، اس میں دو قول ہے اور امام ابو یوسف سے منقول ہے کہ اعتکاف واجب کے لیے مسجد جماعت ضروری ہے اور اعتکاف نفل کے لیے مطلق مسجد کافی ہے۔۔
..رمضان کے اخری عشرے میں اعتکاف سنت موکدہ کفایہ ہے
یعنی سنت موکدہ علی الکفایہ رمضان کے اخری عشرے کا اعتکاف ہے.. اور علی الکفایہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک دو ادمی بھی اعتکاف کر لے تو سارے محلے کے طرف سے سنت ادا ہو جائے گی، اور اگر کوئی بھی اعتکاف نہ کرے تو سب پر ترک سنت کا وبال ہوگا” یہاں سے معلوم ہوا کہ سنت کے ترک پر بھی عذاب ہے
در مختار میں ہے۔۔۔
اگر کوئی شخص دائمی طور پر سنن موکدہ کا ترک ہو جائے تو وہ عند اللہ ماخوذ ہوگا یعنی تارک سنت کی لیے بھی سزا ہے۔۔ اور اس کے اندر روزہ شرط ہے نیز)0 بیس رمضان کو سورج ڈوبنے سے پہلے مسجد میں داخل ہونا ضروری ہے۔۔۔
عورت کا اعتکاف
عورت کا اعتکاف مسجد بیت میں صحیح ہے مسجد بیت سے مراد گھر میں وہ جگہ ہے جس کو وہ اپنی نماز کے لیے متعین کرے اور اگر عورت مسجد جماعت میں اعتکاف کرے تو اس کا اعتکاف صحیح بھی ہو جاتا ہے یا نہیں اس میں ہمارے یہاں دو قول ہے جواز اور عدم جواز۔۔
واجب اعتکاف میں روزہ شرط ہے خوہ روزے کی منت مانی ہو یا نہ مانی ہو روزے کے بغیر واجب اعتکاف نہیں ہوتا، اور اگر کوئی شخص رمضان میں نذر کا اعتکاف کرے تو رمضان کا روزہ کافی ہو جائے گا۔۔
نفل اعتکاف
نفل اعتکاف کے لیے وقت کی تحدید ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے امام اعظم ابوحنیفه کے نزدیک نفل اعتکاف کا زمانہ کم ازکم ایک دن ہے، اور امام ابو یوسف کے نزدیک دن کا اکثر حصہ ہے، اور امام محمد کے نزدیک تحدید نہیں ہے ایک گھڑی کا بھی اعتکاف صحیح ہے حتی کہ مسجد سے گزرتے ہوئے اعتکاف کی نیت سے کچھ توقف کیا بیٹھا نہیں تو بھی اعتکاف ہو گیا’’ فتوی امام محمد کے قول پر ہے۔۔۔
اعتکاف نذر اور اخری عشرہ کا اعتکاف ان دونوں کے علاوہ کا اعتکاف’’ نفل اعتکاف ہے۔۔
اعتکاف نذر اور اخری عشرہ کے اعتکاف میں بلا ضرورت شرعی مسجد سے باہر نکلنا جائز نہیں، جیسے جمعہ پڑھانے کے لیے جا سکتا ہے یعنی اگر اس مسجد میں جمعہ نہیں ہوتا ہے تو دوسری مسجد میں جمعہ پڑھانے کے لیے جانا جائز ہے، البتہ معتکف کو چاہیے کہ وہ مسجد سے کم سے کم غیر حاضر رہے جمعہ کی نماز بالکل قریب مسجد میں پڑھے اور جمعہ پڑھ کر فورا واپس آجائے فضول وقت نہ گزارے اور سنتیں اپنی مسجد میں پڑھے اور اگر دیہات کی مسجد میں اعتکاف کیا ہے تو جمعہ کے لیے باہر نکلنا درست نہیں ہے اس لیے کہ دیہات میں جمعہ جائز نہیں ہے۔۔
غسل کا واجب ہونا اور پیشاب پاخانہ کے لیے بقدر ضرورت معتکف کا مسجد سے باہر نکلنا جائز ہے۔۔
سخت مجبوری میں بھی معتکف مسجد سے باہر جا سکتا ہے جیسا کہ اس کی چند مثالیں۔۔۔۔۔۔۔۔ مسجد کا منہدم ہو جانا، اور کسی ظالم کا زبردستی نکال دینا، مسجد کے لوگوں کا منتشر ہو جانا، اور اپنی جان یا اپنے مال پر خطرہ ہونا ظالموں کی جانب سے۔۔۔۔۔ چنانچہ معتکف چلا جائے کسی دوسری مسجد میں اسی وقت۔۔۔
ضرورت شدیدہ کے بغیر مسجد سے نکلنا کیا حکم رکھتا ہے۔؟
اعتکاف نذر اور اخری عشرہ کے اعتکاف میں ضرورت شدیدہ کے بغیر مسجد سے باہر نکلنا حرام اور مفسدات اعتکاف ہے۔۔ اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ اگر کوئی شخص اعتکاف شروع کر کے توڑ دےخواہ وہ اعتکاف سنت موکدہ ہو یا واجب ہو یا ایسا نفل اعتکاف ہو جس میں وقت کی تعین کر کے مثلا جو 24 گھنٹے کی نیت کر کے اعتکاف شروع کیا ہو اور اسے پورا کرنے سے پہلے توڑ دے تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک قضا واجب ہے۔۔ اس کے بعد جاننا چاہیے کہ اگر دو یا زائد دینوں کا اعتکاف کیا جائے تو ہر دن کا اعتکاف مستقل عبادت ہے، پس جو شخص اعتکاف توڑے گا اس پر صرف چوبیس گھنٹے کی قضا واجب ہوگی، مثلا ایک شخص نے تین دن کا نفل اعتکاف کیا اور دوسرے دن اعتکاف توڑ دیا یا رمضان کے اخری عشرہ کا اعتکاف کیا اور پچیسوں دن کا اعتکاف توڑ دیا تو صرف چوبیس گھنٹے کی قضا واجب ہوگی، اس لیے کہ گزشتہ ایام کے اعتکاف صحیح ہو گئے اور ائندہ کا اعتکاف شروع نہیں ہوا پس جس دن کا اعتکاف توڑا ہے اس کی قضا واجب ہوگی کیونکہ ہر دن کا اعتکاف مستقل ہے۔۔ اور اگر ٹھیک غروب کے وقت اٹھ جائے تو پھر کوئی قضا واجب نہیں ہے اور قضا اعتکاف میں روزہ شرط ہے اور اگر کوئی رمضان میں قضا کرے تو رمضان کا روزہ کافی ہے اور اگر نفل اعتکاف میں وقت کی تعین نہ کی ہو تو مسجد سے نکلتے ہی اعتکاف ختم ہو جائے گا اس کی کوئی قضا واجب نہیں۔۔
…معتکف کے لیے مسجد میں خرید و فروخت
فرماتے ہیں کہ اعتکاف کی حالت میں معتکف کھانا، پینا، سونا، سب مسجد ہی میں کرے گا، اور تجارتی یا غیر تجارتی سامان مسجد میں لا کر بیچنا یا خریدنا معتکف کے لیے نا جائز ہے۔۔ البتہ خرید و فروخت کا معاملہ جو اس کے لیے اور اس کے بال بچوں کے لیے ضروری ہے مسجد میں کیا جائے تو جائز ہے لیکن سامان مسجد میں نہ لائے۔۔۔
معتکف کا خاموش رہنا۔۔۔
مسجد میں بری بات بولنا تو سبھی کے لیے نا جائز ہے مگر معتکف کے لیے خاص طور سے ممنوع ہے۔۔۔ اعتکاف کے آداب میں سے یہ ہے کہ اچھی بات کہ سوا اور کوئی کلام نہ کرے اور چپ چاپ گم صم بیٹھنا اس خیال سے کہ اس میں ثواب زیادہ ہے اعتکاف میں مکروہ ہے، اگر یہ خیال نہیں تھا تو پھر کوئی کراہت نہیں ہے، ہاں خاموش رہنا زبان کے گناہ سے بچنے کے لیے سب سے بڑی عبادت ہے۔۔۔
حالت اعتکاف میں ہمبستری۔۔۔۔۔
حالت اعتکاف میں ہمبستری کرنا حرام ہے دن میں ہو یا رات میں، بھول کر ہو یا جان بوجھ کر، خواہ انزال ہو یا نہ ہوا ہو، ہر حال میں اعتکاف فاسد ہو جائے گا ایسے ہی معتکف نے شرم گاہ کے علاوہ بیوی کے کسی دوسرے حصہ بدن کے ساتھ مباشرت کی یا بوسہ وہ کنارہ کیا تو اگر انزال ہو جائے تو اعتکاف فاسد ہو جائے گا ورنہ نہیں اور قضا لازم ہوگی جس کی تفصیل گزر چکی ہے۔۔
ایک ماہ کے اعتکاف کی نذر ماننے کا کیا حکم ہے؟۔۔۔
صورت مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص نے ایک ماہ کے اعتکاف کی نذر مانی اور اس نے صرف دنوں کی نیت کی یا صرف راتوں کی نیت کی تو اس کی نیت کا کچھ اعتبار نہ ہوگا، اور رات دن اعتکاف کرنا ہوگا کیونکہ مہینہ رات اور دن دونوں کو شامل ہونے کا نام ہے۔۔ اگے فرماتے ہیں کہ اگر اس نے راتوں کا استثناء کر دیا تو صرف دنوں کا اعتکاف لازم ہوگا اور اگر دنوں کا استثناء کر دیا اور کہا کہ میرے ذمہ اللہ کے لیے ایک ماہ کی راتوں کا اعتکاف ہے تو اب اس کے ذمے کچھ نہیں ہے کیونکہ ایام کا استثناء کرنے کے بعد محض راتوں رہ گئی اور راتوں میں منت کا اعتکاف نہیں ہو سکتا کیوںکہ اعتکاف نذر میں روزہ شرط ہے، اور راتیں روزوں کا محل نہیں ہے۔۔۔
اعتکاف کی مشروعیت۔۔۔
اعتکاف کی مشروعیت قران شریف سے ہے اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے
ولا تباشروهن وأنتم عاكفون في المساجد۔۔۔
یعنی ان بیویوں سے اپنا بدن بھی نہ ملنے دو جس زمانے میں کہ تم لوگ اعتکاف والے ہو مسجدوں میں۔۔
ایسے ہی اعتکاف کا ثواب حدیث مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہے کہ حضور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں تشریف لانے کے بعد ہمیشہ رمضان کے اخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کا وصال ہو گیا۔۔
اعتکاف افضل ترین عمل ہے۔۔
اعتکاف اگر اخلاص کے ساتھ ہو تو افضل ترین عمل میں سے ہے، اس کی خصوصیتیں حد احصاء سے خارج ہے کہ اس میں قلب کو دنیا و مافیہا سے یکسوئی کر لینا ہے اور نفس کو مولا کے سپرد کر دینا اور آقا کی چوکھٹ پر پڑ جانا ہے.. نیز اس میں اللہ تبارک و تعالی کے گھر میں پڑ جانا ہے، اور کریم میزبان ہمیشہ گھر آنے والے کا اکرام کرتا ہے نیز اللہ تبارک و تعالی کےقلعہ میں محفوظ ہوتا ہے کہ دشمن کی رسائی وہاں تک نہیں وغیرہ وغیرہ بہت سے فضائل اور خواص اس اہم عبادت کے ہے۔۔۔