علمائےآ خرت کی نشانیاں
(علماء کی سزا دل کی موت ہے)
تفصیل کے ساتھ قرآن اور حدیث کی روشنی میں
ان میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے علم کے ساتھ دنیا کو طلب نہ کرے۔ اور نہ پائیداری نیز آخرت کی عظمت اور دوام اس کی نعمتوں کی صفائی اور اس کی سلطنت کی بڑائی کا شعور رکھتا ہو، اور اسے معلوم ہو کے یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد میں ،اور دونوں دو سوکنوں کی طرح ہے، جب ایک کو راضی کرو گے تو دوسری ناراض ہوگی، یا ترازو کے دو پلڑوں کی طرح ہے۔ جب ایک بھاری ہوگا تو دوسرا ہلکا ہوگا، ارو دو پیالیوں کی طرح ہے، ان میں سے ایک بھرے گا تو دوسرا فارغ ہوگا، ایک کو جتنا بھرو گے حتی کہ اسے مکمل بھر دو تو دوسرا فارغ ہو جائے گا ،جو شخص دنیا کی حقارت گدلا پن اور اس کی لذتوں کی تکالیف کے ساتھ ملے ہونے کی پہچان نہیں رکھتا اور نہیں جانتا کہ جو دنیوی لذت کی خلش کے بغیر ہوتی ہو وہ جلدی ختم ہو جاتی ہے، اس شخص کی عقل خراب ہے ۔کیونکہ مشاہدہ اور تجربہ اس بات کی خبر دیتا ہے، تو جو آدمی عقل مند نہ ہو وہ علماء میں سے کیسے ہو سکتا ہے ،اور جو آدمی آخرت کی عظمت اور اس کے دوام کو نہیں جانتا وہ کافر ہے، اس کا ایمان سلب ہو گیا تو جس کے پاس ایمان نہیں وہ علماء میں سے کیسے ہوگا۔۔
اور جو شخص نہیں جانتا کہ دنیا آخرت کی ضد ہے اور ان دونوں کو جمع کرنا ایک بے فائدہ لالچ ہے، وہ تمام انبیاء کرام کی شریعتوں سے جاہل ہے، بلکہ قرآن پاک کے اول سے آخر تک کا منکر ہے ،تو وہ کس طرح علماء کی جماعت میں شمار ہوگا اور جو آدمی ان سب باتوں کو جانتا ہو پھر بھی آخرت کو دنیا پر ترجیح نہ دے تو اس کی شہوات نے اسے تباہ کر دیا اور اس پر بدبختی غالب آگئی تو اس درجے کا آدمی علماء کے گروہ میں کیسے شمار کیا جائے گا۔۔۔
حضرت داؤد علیہ السلام کے واقعات میں ہے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ،جو شخص اپنی خواہش کو میری محبت پر ترجیح دیتا ہے میں اسے کم از کم یہ سزا دیتا ہوں کہ اسے اپنی مناجات کی لذت سے محروم کر دیتا ہوں، اے داؤد علیہ السلام !مجھ سے ایسے عالم کے بارے میں سوال نہ کرنا جسے دنیا نے نشے میں ڈال دیا ،وہ تجھے میری محبت کے راستے سے روک دے گا، اور یہ لوگ میرے بندوں پر ڈاکہ ڈالنے والے ہیں ،اے داؤد علیہ السلام !جب کسی کو میرا طالب دیکھو تو اس کے خادم بن جاؤ ،اے داؤد علیہ السلام !جو آدمی کسی بھاگے ہوئے کو میری طرف لے آتا ہے میں اسے باخبر لکھ دیتا ہوں، اور جس کو میں باخبر لکھ دوں اس سے کبھی بھی عذاب نہیں دوں گا۔۔۔۔
اسی لیے حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالی عنہ نے فرمایا،( علماء کی سزا دل کی موت ہے) اور دل کی موت اخروی عمل کے ذریعے دنیا طلب کرنا ہے”اور اسی لیے حضرت یحیی بن معاذ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب علم وہ حکمت کے ذریعے دنیا طلب کی جائے تو اس کی قدر و قیمت جاتی رہتی ہے،حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب تم کسی عالم کو دیکھو گے وہ امراء کے پاس آتا جاتا ہے تو وہ چور ہے ۔۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا جب تم کسی عالم کو دیکھو گے وہ دنیا سے محبت کرتا ہے تو سمجھ لو کہ تمہارے دین میں وہ تہمت زدہ ہے کیوں کہ ہر محبت کرنے والا اسی چیز میں مصروف رہتا ہے جس سے محبت کرتا ہے۔۔۔
حضرت مالک بن دینار رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے بعض گزشتہ کتابوں میں پڑھا! کے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جب کوئی عالم دنیا سے محبت کرتا ہے تو میں اسے سب سے ہلکی سزا یہ دیتا ہوں کہ اس کے دل سے مناجات کی لذت نکال دیتا ہوں۔ایک شخص نے اپنے بھائی کو لکھا تجھے علم دیا گیا ہےبس گناہوں کے اندھیرے سے اپنے علم کے نور کو نہ بجھانا۔ اسی طرح تم اس دن اندھیرے میں رہو گے، جس دن اہل علم اپنے علم کی روشنی میں چلے جائیں گے”۔۔
حضرت یحیی بن معاذ رازی رحمہ اللہ علمائے دین سے یوں خطاب ہوتے تھے “، علمائے کرام تمہارے محلات (رومی بادشاہ )کے محلات اور تمہارے گھر (ایرانی بادشاہ )کے گھروں کی طرح ہے ،تمہارے کپڑے محض ظاہری ہے ،موزے جالوت کے موزوں جیسے ،سواریاں قارونی، برتن فرعونی، گناہ دورے جاہلیت جیسے ،اور تمہارے راستے شیطانی ہیں۔( تو شریعت محمدی کہاں ہیں)۔۔
کسی شاعر نے کہا ہے
چرواہا،، بکری کو بھیڑیے سے بچاتا ہے، جب چروا ہےہی بھیڑیا بن جائے تو پھر کیا ہوگا”۔ایک دوسرے شاعر نے کہا،۔ اے قراء کے گروہ، اے شہر کے نمک ،جب نمک ہی خراب ہو جائے تو وہ کس کو ٹھیک کرے گا۔کسی عارف سے پوچھا گیا کہ کیا وہ شخص جسے گناہوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک حاصل ہوتی ہے ،وہ اللہ تعالی کو نہیں پہچانتا ،انہوں نے فرمایا مجھے اس میں شک نہیں کہ جس شخص کے نزدیک دنیا کو آخرت پر ترجیح ہو،وہ اللہ تعالی کی معرفت نہیں رکھتا ،اور یہ شخص پہلے آدمی کی بنسبت بہت ہلاک ہے،اور یہ خیال نہ کرو کہ علماء آخرت کے ساتھ ملنے کے لیے ترک مال کافی ہے بلکہ مال کی بنسبت عہدے کا ضرر زیادہ ہے۔اسی وجہ سے حضرت بشررحمہ اللہ نے فرمایا لفظ (حدثنا):ہم سے حدیث بیان کرے،دنیا کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے، جب کسی آدمی سے لفظ (حدثنا)سنو تو وہ کہتا ہے مجھے ؛جگہ دو ؛حضرت بشری بن حارث رحمہ اللہ نے کتابوں کے دس سے زائد بستے اور ٹوکرے دفن کر دیے تھے!اور وہ فرماتے تھے کہ مجھے حدیث بیان کرنے کی خواہش پیدا ہوئی ہے اگر بیان حدیث کی خواہش ختم ہو گئی تو میں حدیث بیان کروں گاانہوں نے اور دوسرے حضرات سے فرمایا جب تمہیں حدیث بیان کرنے کی خواہش پیدا ہو تو خاموش رہو پھر جب یہ خواہش نہ رہی تو بیان کرو ۔یہ اس لیے کہ تعلیم وہ ارشاد کے منصب کی لذت دنیا کی ہر نعمت کی لذت سے بڑی ہے لہذا جو آدمی خواہشات کی بات مانتا ہے وہ دنیا کےبیٹوں میں سے ہے ،اسی لیے حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ نے فرمایا ،حدیث بیان کرنے کا فتنہ اہل، مال، اور اولاد کے فتنے سے زیادہ سخت ہے اور اس فتنے کا خوف کیسے نہ کیا جائے حالانکہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیاَ۔
ولولا أن ثبتناك لقد كدت تركن إليهم شيئا قليلاَ۔
اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو قریب تھا کہ آپ ان کی طرف کچھ نہ کچھ مائل ہو جاتے۔
حضرت سہیل رحمۃ اللہ فرماتے ہیں علم تمام کا تمام دنیا ہے اور اس پر عمل آخرت ہے اور اخلاص کے بغیر تمام علم بیکار ہے، انہوں نے فرمایا علماء کے علاوہ تمام لوگ مردہ ہیں اور باعمل علماء کے علاوہ باقی تمام علماء نشے کی حالت میں ہیں اور با عمل علماء تمام کے تمام دھوکے میں ہیں سوائے ان کے جو مخلص ہے اور مخلصین خوف زدہ ہےنہیں معلوم ان کا خاتمہ کیسے ہو۔
حضرت ابو سلیمان دارانی رحمہ اللہ نے فرمایاجب کوئی آدمی حدیث طلب کرے تاکہ نکاح کرے یا طلب معاش کے لیے سفر کرے تو وہ دنیا کی طرف مائل ہو گیا اس سے ان کی غرض یہ ہے کہو نیچے اونچے سندیں طلب کرتا ہے یا وہ حدیث تلاش کرتا ہے جس کی طلب آخرت کے لیے ضرورت نہیں۔
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا وہ شخص اہل علم میں سے کیسے ہو سکتا ہے ؟جس کا سفر آخرت کی طرف ہو اور وہ دینوی راستے کی طرف متوجہ ہو اور وہ شخص کس طرح علماء میں شمار ہو سکتا ہے جو صرف اس لیے علم کی تلاش میں رہتا ہو کے اس کے ذریعے دوسروں کا امتحان لے، عمل کرنا مقصد نہیں۔۔
حضرت صالح بن کیسان بصری نے ،میں نے بہت سے بزرگوں کو دیکھا کہ وہ بدکار عالم حدیث سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے تھے “ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
من طلب علما مما يبتغي به وجه الله تعالى ليصيب به عرضا من الدنيا لم يجد عرف الجنة يوم القيامة
جو شخص ایسا علم جس کے ذریعے اللہ تعالی کی رضا تلاش کی جاتی ہے، اس لیے حاصل کرتا ہے کہ اس کے سبب دنیا کا سامان پائے، وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو سے محروم رہے گا۔
اللہ تعالی نے علمائے سو کے بارے میں فرمایا کہ وہ علم کے ذریعے دنیا کھاتے ہیں۔ اور علمائے آخرت خشوع اور زہد والے ہوتے ہیں،
علمائے دنیا کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے
واذ اخذ الله ميثاق الذين اوتوا الكتاب لتبيننه للناس ولا تكتمونه فنبذوه وراء ظهورهم واشتروا به ثمنا قليلا۔
اور جب اللہ تعالی نے ان لوگوں سے وعدہ لیاجنہیں کتاب دی گئی تاکہ وہ اسے لوگوں کے سامنے بیان کرے اور اسے نہ چھپائے تو انہیں اسے پیٹھ کے پیچھے ڈال دیا اور اس کے ذریعے بہت کم قیمت حاصل کی۔
علماء آخرت کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے
وان من اهل الكتاب لمن يؤمن بالله وما انزل اليكم وما انزل اليهم خاشعين لله لا يشترون بآيات الله ثمنا قليلا اولئك لهم أجرهم عند ربهم
اور بے شک اہل کتاب میں سے وہ لوگ بھی ہیں کہ اللہ تعالی پر جو کچھ تمہاری طرف نازل کیا گیا اور جو کچھ ان کی طرف نازل کیا گیا اس پر ایمان لاتے ہیں وہ اللہ تعالی کے لیے جھکتے ہیں اور اس کی آیات کے بدلے تھوڑی قیمت نہیں لیتے ان لوگوں کا اجر اللہ کے پاس ہے۔۔
بعض بزرگوں نے فرمایا علماء کو انبیاء کرام کے گروہ میں اٹھایا جائے گا ،اور قاضیوں کو بادشاہوں کی جماعت میں اٹھایا جائے گا، ہر وہ فقیہ ان قاضیوں کے مفہوم میں شامل ہے جو اپنے علم سے دنیا کا قصد کرتا ہے۔۔
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ اپ فرماتے ہیں
اللہ تعالی نے بعض انبیاء کرام کی طرف وحی بھیجی جو لوگ غیر دین کے لیے فقہ اور غیر عمل کے لیے علم حاصل کرتے ہیں آخرت کے عمل کے ذریعے دنیا طلب کرتے ہیں، لوگوں کو دکھانے کے لیے بکری کی کھال پہنتے ہیں ،جب کہ ان کے دل بھیڑیوں کے دل جیسے ہیں، ان کی زبان شہد سے زیادہ میٹھی، اور ان کے دل ایلوا سے بھی زیادہ کڑوے ہیں، وہ مجھے دھوکہ دیتے ہیں اور میرا مذاق اڑاتے ہیں ،آپ ان سے فرما دیں کہ میں انہیں ایسے فتنے میں مبتلا کروں گا جس میں ایک بردبار آدمی بھی حیران رہ جائے گا۔۔
حضرت ضحاک نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کیا وہ فرماتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
اس امت کے علماء (دو قسم کے) آدمی ہیں ایک وہ شخص جسے اللہ تعالی نے علم دیا اور اس نے اسے لوگوں پر خرچ کیا اس نے اس پر کوئی لالچ کی اور نہ اس کے بدلے کوئی قیمت لی”یہ وہ شخص ہے جس کے لیے آسمان کے پرندے پانی کی مچھلیاں زمین کے چار پائے اور کراما کاتبین (فرشتے) رحمت کی دعا مانگتے ہیں ،وہ عالم قیامت کے دن اللہ تعالی کے سامنے ایک معزز سردار کی صورت میں پیش کیا جائے گا حتی کہ وہ رسل عظام کی رفافت اختیار کرے گا ۔۔اور دوسرا وہ شخص ہے جسے اللہ تعالی نے دنیا میں علم عطا کیا لیکن اس نے بندگان خدا سے بخل کیا اس پر طمع کیا اور قیمت وصول کی یہ عالم قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اسے آگ کی لگام ڈالی جائے گی اور لوگوں کے سامنے ایک منادی اعلان کرے گا کہ یہ فلاں بن فلاں ہیں اسے اللہ تعالی نے دنیا میں علم عطا کیا لیکن اس نے اس کے بندوں سے بخل کیا لالچ کی اور اس علم کے بدلے قیمت حاصل کی چنانچہ اسے عذاب دیا جائے گا ،یہاں تک کہ لوگوں کے حساب سے فراغت ہو جائیں گے۔۔
اس سے بھی زیادہ سخت یہ روایت ہے کہ ایک شخص حضرت موسی علیہ السلام کی خدمت کیا کرتا تھا اس نے لوگوں کے سامنے کہنا شروع کر دیا کہ مجھ سے اللہ تعالی کے منتخب بندے حضرت موسی علیہ السلام نے بیان فرمایا مجھ سے حضرت موسی علیہ السلام نے بیان کیا جنہیں اللہ تعالی نے نجات عطا فرمائی۔ مجھ سے حضرت موسی علیہ السلام نے بیان کیا جن سے اللہ تعالی نے کلام فرمایا حتی کہ وہ بہت مالدار ہو گیا اور اس کے پاس بہت زیادہ مال جمع ہو گیا ،حضرت موسی علیہ السلام نے ا سے نہ دیکھا تو اس کے بارے میں پوچھنے لگے،لیکن اس کا سوراخ نہ ملا ،حتی کہ ایک دن ایک شخص آیا اور اس کے پاس خنزیر تھا اور اس کے گلے میں سیاہ رسی ڈالی گئی تھی، حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا کیا تو فلاں کو جانتا ہے؟ اس نے عرض کیا جی ہاں ،وہ یہی خنزیر ہے!حضرت موسی علیہ السلام نے بارگاہ خداوندی میں عرض کیا ،اے میرے رب میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ اسے اصلی شکل پر لوٹا دیتا تاکہ میں اس سے پوچھوں کہ اسے کیا ہوا ہے، اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ اگر اپ مجھےان الفاظ وہ صفات کے ساتھ پکاریں جن کے ساتھ حضرت ادم علیہ السلام اور دیگر لوگوں نے پکارا تو بھی میں آپ کو اس کے بارے میں جواب نہیں دوں گا!لیکن جس سبب سے میں نے اس کی شکل بدلی ہے وہ بتا دیتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ شخص دین کے ذریعے دنیا حاصل کرتا تھا۔۔
اور اس سے بھی زیادہ سخت وہ روایت ہے جو حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ سے موقوفا اور مرفوع دونوں طرح سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
عالم کے فتنے میں سے ہے کہ اسے سننے کی بنسبت کلام کرنا زیادہ پسند ہو، حالانکہ تقریر میں بناوٹ اور زیادتی ہو جاتی ہے اور اس سے غلطی کا ڈر رہتا ہےجب کہ خاموشی میں سلامتی اور علم ہےاور علماء میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے علم کو جمع رکھتے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ یہ دوسروں کے پاس بھی پایا جائے تو ایسے عالم جہنم کے سب سے نچلے گھڑے میں ہوں گے،کوئی عالم اپنے علم میں بادشاہ کی طرح ہوتا ہے اگر اس کے علم کے بارے میں کوئی اعتراض کیا جائے یا اس کے حق میں کچھ کوتاہی کی جائے تو اسے غصہ آتا ہے ایسا عالم جہنم کے دوسرے گڑے میں ہوگا،کوئی عالم اس طرح کا ہوتا ہے کہ وہ اپنے علم اور عمدہ حدیثوں کو معزز اور مالدار لوگوں کے لیے کر دیتا ہے اور ضرورت مندوں کو اس کا اہل نہیں سمجھتا یہ جہنم کے تیسرے درجے کا ہوگا،بعض عالم اپنے آپ کو فتوی دینے کے لیے مقرر کر دیتے ہیں اور غلط فتوی دے دیتے ہیں اور اللہ تعالی تکلف کرنے والوں کوناپسند کرتا ہے تو ایسا عالم جہنم کے چوتھے طبقے میں ہوگا ،بعض علماء یہود و نصاری کا کلام پیش کرتے ہیں تاکہ اس کے علم کی حدر ہو ایسا شخص جہنم کے پانچویں طبقے میں جائے گا ،کوئی عالم اپنی علم کو لوگوں میں مروت فضیلت اور ذکر کا ذریعہ بناتا ہے یہ جہنم کے چھٹے طبقے میں جائے گا،بعض علماء کو تکبر اور خود پسندی دھوکہ دیتی ہے اگر خود وعظ کرے تو سختی کرتا ہے اور اسے نصیحت کی جائے تو نہ چڑھاتا ہے یہ شخص جہنم کے ساتویں طبقے میں ہوگا،تو ائے بھائی ،تجھ پر خاموشی لازم ہے اس طرح تم شیطان پر غالب آؤ گے کس عجیب بات کے بغیر نہ ہنسنا ،اور کسی مقصد کے بغیر باہر نہ جانا(بحواله الموضوعات لابن جوزي جلدي اول/ص265)۔۔
ایک دوسری حدیث میں ہے
إن العبد لينشر له من الثناء ما يملاء ما بين المشرق والمغرب عند الله جناح بعوضة(بحواله اسرار المرفوعہ)۔
ایک شخص کے لیے تعریف اس قدر پھیلائی جاتی ہے کہ وہ مشرق و مغرب کے درمیان کو بھر دیتی ہے ،حالانکہ اللہ تعالی کے ہاں وہ مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہوتی۔۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ اپنی مجلس سے واپس ہونے لگے تو ایک خراسانی آدمی نے ایک تھیلی پیش کی جس میں پانچ ہزار درہم اور باریک ریشمی کے دس کپڑے تھے، اور کہا یہ خرچ کے لیے ہے اور یہ پہننے کے کپڑے ہیں، حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا اللہ تعالی تجھے معاف کرے اپنی رقم اور اپنے کپڑے لے جاؤ ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے جو شخص میری طرح کی مجلس میں بیٹھے اور لوگوں سے اس قسم کی چیزیں قبول کرے قیامت کے دن اللہ تعالی اسے یوں ملاحات کرے گا کہ اس کا کوئی حصہ نہ ہوگا۔۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے موقوفن اور مرفوع روایت ہے فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
لا تجلس عند كل عالم الا الى عالم يدعوكم من خمس إلى خمس من الشك إلى اليقين ومن الرياء الى الاخلاص ومن الرغبة إلى الزهد ومن الكبر الى التواضع ومن العداوة الى النصيحه(بحواله کنزالعمال/ج 9،ص 147۔)۔
ہر عالم کے پاس نہ بیٹھو ،صرف اسی عالم کے پاس بیٹھو جو تمہیں دس چیزوں کو چھوڑ کر دوسری دس چیزوں کی دعوت دیتا ہے، شک سے یقین کی طرف، ریاکاری سے اخلاص کی طرف ،دنیوی رغبت سے زہد کی طرف ،تکبر سے عاجزی کی طرف، دشمنی سے خیر خواہی کی طرف بلاتا ہے۔۔
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے
فخرج على قومه في زينته قال الذين يريدون الحياۃ الدنيا ياليت لنا مثل ما أوتي قارون إنه لذو حظ عظيم وقال الذين أوتوا العلم ويلكم ثواب الله خير لمن آمن
پھر وہ (قارون) بن ٹھن کر قوم کی طرف نکلا تو جو لوگ دنیوی زندگی چاہتے تھے کہنے لگے، کاش ہمارے لیے یہ بھی اس کی مثل ہوتا جو قارون کو دیا گیا بے شک یہ بہت بڑے حصے والا ہے، اور جن کو علم دیا گیا تھا انہوں نے کہا تمہارے لیے ہلاکت ہو ایمان والوں کے لیے ثواب بہتر ہے۔۔
تو اہل علم نے جان لیا کہ آخرت کو دنیا پر ترجیح دینی چاہیے۔ علمائے آخرت کی علامات میں سے ایک علامت یہ بھی ہے کہ اس کا عمل اس کے قول کے خلاف نہ ہو ،بلکہ جب تک وہ کسی بات پر خود عمل نہ کرتا ہو اس کا حکم نہ دے۔۔
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا
أتأمرون الناس بالبر وتنسون أنفسكم
کیا تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو
حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں مجھے خبر ملی ہے کہ قیامت کے دن فاسق علماء کا حساب بت پرستوں سے بھی پہلے ہوگا،حضرت ابو دردہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا جو شخص علم نہیں رکھتا اس کے لیے ایک خرابی ہے، اور جو عالم عمل نہیں کرتا اس کے لیے سات بار خرابی ہے،حضرت شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں قیامت کے دن اہل جنت کا ایک طبہ جہنمیوں کی ایک جماعت کی طرف جھانکے گا اور وہ ان سے کہے گا نیکی کا حکم دیتے تھے اور خود عمل نہیں کرتے تھے اور برائی سے روکتے تھے لیکن خود نہیں چھوڑتے تھے،حضرت مالک بن بینا رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب کوئی عالم اپنے علم پر عمل نہیں کرتا تو لوگوں کے دلوں سے و ہ اس طرح پھسلتا ہے جیسے صاف پتھر سے خطر ہ پھسل جاتے ہیں۔
حضرت ابن سماک نے فرمایا ،کتنے ہی لوگ لوگوں کو اللہ تعالی کی یاد دلاتے ہیں لیکن خود اسے بھول جاتے ہیں ،کتنے ہی ڈرانے والے خود اللہ تعالی پر جرات کرتے ہیں، کتنے ہی لوگ دوسروں کو خداوند تعالی کے قریب کرتے ہیں اور خود اس سے دور ہوتے ہیں، کتنے ہی لوگ اللہ تعالی کی طرف بلاتے ہیں لیکن خود بھاگتے ہیں ،کتنے ہی لوگ اللہ تعالی کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں لیکن اس کی آیات سے علیحدہ رہتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
تعلموا ما شئتم أن تعلموا فلن يأجركم حتى تعملوا
جو چاہو سیکھو لیکن اللہ تعالی ہرگز تمہیں اجر نہیں دے گا، جب تک عمل نہیں کرو گے۔حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا جو شخص علم حاصل کرتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں کرتا اس کی مثال اس عورت جیسی ہے جو چھپ کر زنا کا ارتکاب کرتی ہے پھر حاملہ ہو جاتی ہے اور اس کا حمل ظاہر ہو جاتا ہے تو وہ رسوا ہوتی ہے ،اسی طرح جو شخص اپنے علم کے مطابق عمل نہیں کرتا قیامت کے دن اللہ تعالی اسے لوگوں کے سامنے رسوا فرمائے گا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تین باتیں ایسی ہیں جن سے اہل زمانہ برباد ہو جاتا ہے ان میں سے ایک عالم کا چلا جانا ہے(عمل کرنے والا عالم)۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں دل کا مٹھاس کھارا ہو جائے گا، اس وقت کسی عالم اور طالب علم کو اس کے علم سے نفع نہیں ہوگا، علماء کے دل بنجر کھیتی کی طرح ہو جائیں گے اس پر بارش ہوتی ہے لیکن مٹھاس پیدا نہیں ہوتی، اور یہ اس وقت ہوگا جب علماء کے دل دنیا کی محبت کی طرف مائل ہو جائیں گے، اور وہ ا سے آخرت پر ترجیح دیں گے، اس وقت اللہ تعالی دلوں سے حکمت کے چشمے نکال لے گا اور ہدایت کے چراغ بجھا دے گا ،جب تو کسی عالم سے ملاقات کرے گا تو وہ کہے گا کہ وہ اللہ تعالی سے ڈرتا ہے لیکن اس کے عمل سے گناہ ظاہر ہوگااس دن زبانوں میں کسی قدر چاشنی ہوگی لیکن دل خشک ہوں گے، مجھے اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں یہ صرف اس لیے ہوگا کہ استاد نے غیر خدا کے لیے سکھایا اور طالب علم نے غیر خدا کے لیے سیکھا۔حضرت کعب رحمہ اللہ فرماتے ہیں اخری زمانے میں کچھ علماء ہوں گے جو لوگوں کو دنیا سے بے رغبتی کا سبق دیں گے ،اور خود اس سے الگ نہیں ہوں گے ،لوگوں کو خوف خدا کی تعلیم دیں گے خود نہیں ڈریں گے، لوگوں کو حکمرانوں کے پاس جانے سے منع کریں گے لیکن خود ان کے پاس جائیں گے ،دنیا کو آخرت پر ترجیح دیں گے اپنی زبانوں کی کمائی کھائیں گے، امراء کے قریب ہوں گے غرباء کے قریب نہیں جائیں گے ،علم پر ایک دوسرے سے یوں لڑیں گے جس طرح عورتیں مردوں سے لڑتی ہے، اگر ان کا کوئی ساتھی کسی دوسرے عالم کے پاس جا کر بیٹھے گا تو وہ اس پر غصہ کریں گے اور یہ لوگ متکبر اور اللہ تعالی کے دشمن ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،بعض اوقات شیطان تمہیں علم کے ذریعے ہلاک کرتا ہے عرض کیا گیا ،یا رسول اللہ وہ کیسے ؟آپ نے فرمایا وہ کہتا ہے علم طلب کرو اور جب تک علم مکمل نہ ہو جائے عمل نہ کرو، چنانچہ وہ ہمیشہ علم حاصل کرنے کے بارے میں کہتا رہتا ہے اور عمل کے معاملے میں ہلاک کر تا ہے ،حتی کہ موت آ جاتی ہے اور وہ عمل نہیں کرتا۔
ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور اس نے کہا مجھے علم کی عجیب و غریب باتیں بتائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا تم نے بنیادی علم میں کیا عمل کیا؟ اس نے پوچھا بنیادی علم کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے اللہ تعالی کی معرفت حاصل کی ہے، اس نے عرض کیا جی ہاں “آپ نے فرمایا تو نے اس کے حق کی ادائیگی میں کیا کہا؟ اس نے عرض کیا جو اللہ تعالی نے چاہا ،آپ نے فرمایا تجھے موت کی پہچان حاصل ہے ،اس نے کہا ،جی ہاں” آپ نے فرمایا تو نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ اس نے کہا، جو اللہ تعالی نے چاہا” آپ نے فرمایا جاؤ اور ان امور میں پختگی اختیار کرو، پھر آنا ہم تجھے علم کی عجیب باتیں سکھائیں گے۔
حضرت شفیق بلخی رحمہ اللہ نے فرمایا ،میری عمر تیرے ساتھ گزر گئی،اے حاتم تو نے صرف آٹھ مسائل سیکھے !انہوں نے عرض کیا ،اے استاد، میں نے اس کے علاوہ کچھ نہیں سیکھا اور میں جھوٹ بولنا پسند نہیں کرتا ،انہوں نے فرمایا وہ آٹھ مسائل بیان کرو ،تاکہ میں سنوں،
حضرت حاتم نے فرمایا میں نے اس مخلوق پر نظر کی تو دیکھا کہ ہر شخص ایک محبوب سے محبت کرتا ہے اور وہ اپنے محبوب کے ساتھ قبر تک جاتا ، قبر تک پہنچنے کے بعد وہ اس سے جدا ہو جاتا ہے،تو میں نے نیکیوں کو اپنا محبوب بنایا جب میں قبر میں جاؤں گا تو میرا محبوب میرے ساتھ داخل ہوگا ،حضرت شفیق نے فرمایا بہت خوب *اے حاتم
دوسری بات کون سی ہے؟ انہوں نے عرض کیا میں نے اللہ تعالی کے اس ارشاد گرامی میں نظر کی۔واما من خاف مقام ربه ونهى النفس عن الهوى فإن الجنة هي المأوى۔اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا اور اپنے نفس کو خواہش سے بچایا جنت اس کا ٹھکانا ہے،مجھے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کا قول حق ہے تو میں نے اپنے نفس کو خواہش سے دور رہنے کی عادت ڈال دی ،حتی کہ وہ اللہ تعالی کی فرمانبرداری پر پکا ہو گیا۔
تیسری بات یہ ہے کہ میں نے اس مخلوق میں نظر کی تو دیکھا کہ جو شخص کے پاس کوئی قیمتی چیز ہوتی ہے وہ اس کو بلند رکھتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے پھر میں نے اللہ تعالی کے اس ارشاد گرامی کو دیکھا۔ما عندكم ينفد وما عند الله باق،جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہو جائے گا اور جو کچھ اللہ تعالی کے پاس ہے وہ باقی رہے گا،لہذا جب بھی میرے پاس کوئی قدر و قیمت والی چیز آتی ہے ،تو میں اسے اللہ تعالی کی طرف پھیر دیتا ہوں ،تاکہ وہ اس کے پاس محفوظ رہے۔
چوتھی بات یہ ہے کہ میں نے اس مخلوق پر نظر دوڑائی تو دیکھا کہ ان میں سے ہر ایک ،مال، حسب وہ نسب ،اور شرف کی طرف لوٹتا ہے ،جب میں نے غور کیا تو دیکھا کہ یہ کوئی چیز نہیں، پھر میں نے ارشاد خداوندی کو دیکھا۔ ان اكرمكم عند الله اتقاكم،بے شک اللہ تعالی کے ہاں تم میں سے زیادہ معزز وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے،تو میں نے تقوے کو اختیار کیا ،تاکہ میں اللہ کے ہاں معزز بن جاؤں۔
پانچواں مسئلہ یہ ہے کہ میں نے اس مخلوق میں نظر کی تو وہ ایک دوسرے پر لعن طعن کرتے ہیں ،اور اس کی بنیاد حسد ہے ،پھر میں نے اللہ تعالی کا ارشاد گرامی دیکھا۔نحن قسمنا بينهم معيشتهم في الحياة الدنيا،ہم نے دنیا کی زندگی میں ان کی روزی ان کے درمیان تقسیم کر دی ہے،تو میں نے حسد چھوڑ دیا اور مخلوق سے الگ رہا ،اور مجھے معلوم ہو گیا کہ تقسیم تو اللہ کی طرف سے ہے، تو میں نے مخلوق کی دشمنی کو ترک کر دیا۔
چھٹی بات یہ ہے کہ میں نے اس مخلوق کو دیکھا کہ ان میں سے بعض بعض پر زیادتی کرتی ہے، تو میں نے ارشاد خداوندی میں نظر کی،ان الشيطان لكم عدو فاتخذوه عدوا،بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے ،تو اسے اپنی دشمنی سمجھو، لہذا میں نے صرف اسی سے دشمنی کی اور اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں ،کیوں کہ اس بات پر اللہ تعالی کی شہادت پائی جاتی ہے ،کہ وہ میرا دشمن ہے ۔بس میں نے اس کے علاوہ مخلوق سے دشمنی کو چھوڑ دیا۔
ساتویں بات یہ ہے کہ میں نے مخلوق کی طرف دیکھا تو ان میں سے ہر ایک کو یوں پایا کہ وہ روٹی کے اس ٹکڑے کی طلب میں اپنے نفس کو ذلیل کرتا ہے، اور اس میں اس چیز کو داخل کرتا ہے جو اس کے لیے حلال نہیں ،پھر میں نے اللہ تعالی کے ارشاد گرامی میں نظر کی ارشاد خداوندی ہے ،وما من دابه في الارض الاعلى الله رزقها، زمین میں کوئی بھی چار پا یہ نہیں مگر اس کا رزق اللہ تعالی کے ذمہ کرم پر ہے،تو مجھے معلوم ہوا کہ میں بھی ان جاندار چیزوں میں سے ایک ہوں جن کا رزق اللہ تعالی کے ذمہ ہے تو میں اس کام میں مشغول ہو گیا جو اللہ کے لیے مجھ پر لازم ہے ،اور جو کچھ میرے لیے اس کے پاس ہے اس کو چھوڑ دیا۔
آٹھویں بات یہ ہے کہ میں نے اس مخلوق کی طرف نظر کی تو میں نے دیکھا کہ یہ تمام لوگ مخلوق پر بھروسہ کرتے ہیں، کوئی زمین پر، کوئی اپنی تجارت پر ،کوئی اپنے صفت پر ،اور کوئی اپنے بدن کی صحت پر بھروسہ کرتا ہے ،گویا یہ ہر مخلوق اپنی جیسی مخلوق پر توکل کرتی ہے،پھر میں نے اللہ تعالی کے ارشاد گرامی کی طرف رجوع کیا ،ارشاد خداوندی ہے،ومن يتوكل على الله فهو حسبه،اور جس نے اللہ تعالی پر بھروسہ کیا وہ اس کے لیے کافی ہے۔حضرت شفیق نے فرمایا ،اے حاتم اللہ تعالی تجھے توفیق عطا فرمائے میں نے ،تورات ،انجیل، زبور، اور قرآن مجید ،کے علوم کو دیکھا تو خیر اور دیانت کے تمام اقسام کو یوں پایا کہ وہ ان آٹھ مسائل کے گرد گھومتے ہیں، لهذا جس نےان پر عمل کیا اس نے ان چاروں کتابوں پر عمل کیا۔
تو اس طرح کے فن کو حاصل کرنے اور سمجھنے کا اہتمام علمائے آخرت ہی کرتے ہیں، جہاں تک علماء دنیا کا تعلق ہے تو وہ اس چیز میں مشغول ہوتے ہیں جس کے ذریعے ،مال، اور مرتبہ ،کا حصول اسان ہو جائے، اور اس قسم کے علوم جن کے ساتھ اللہ تعالی نے انبیاء کرام علیہ السلام کو بھیجا ان کو چھوڑ دیتے ہیں۔