خوف و خشیت
ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تبارک و تعالی نے ایک فرشتہ پیدا کیا جس کے دونوں بازوؤں کا درمیانی فاصلہ مشرق و مغرب کو گھیرے ہوئے ہیں، اس کا سر زیر عرش ہے اور دونوں پاؤں تحت الثری میں ہے۔ روئے زمین پر آباد خلق کے برابر اس کے پر ہیں میری امت میں سے جب کوئی مرد یا عورت مجھ پر درود بھیجتی ہے یا بھیجتا ہے تو اس فرشتے کو (اذن الہی) ہوتا ہےکہ وہ عرش کے نیچے بحر نور میں غوطہ زن ہو تو وہ غوطہ لگاتا ہے ،جب باہر نکل کر وہ اپنے بازو جھاڑتا ہے تو اس کے پروں سے خطرہ ٹپکتے ہیں، ذات باری تعالی ہر خطرے سے ایک فرشتہ پیدا کرتا ہے ،جو قیامت تک اس کے لیے دعائے مغفرت کرتا ہے۔ ایک دانا(علم والے ) کا قول ہے کہ جسم کی سلامتی کم کھانے میں ہے، اور روح کی بقاء کم گناہوں میں ہے، اور ایمان کی سلامتی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ و سلام پڑھنے میں ہے۔
ارشاد خداوندی ہے
يا ايها الذين امنوا اتقوا الله(اے ایمان والو اللہ سے ڈرو)
“یعنی قلب میں خوف خدا پیدا کرو اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرو”
ولتنظر نفس ما قدمت لغد(اور انسان دیکھے کہ آئندہ کے لیے آگے کیا بھیجا)
مطلب یہ ہے کہ روز جزا کے لیے کیا اعمال کیا ؟مفہوم اس کا یہ ہے کہ صدقہ کرو، اور اعمال صالحہ کرو، تاکہ قیامت کے دن ان کا اجر پاؤ اور اپنے رب سے ڈرتے رہو اللہ تعالی تمہاری ہر اچھی اور بری بات کو جانتا ہے۔
قیامت کے دن فرشتے، زمین ،فلک ،روز و، شب ،تمام گواہی دیں گے کہ آدم ،زاد نے یہ کام بھلائی کا کیا یا برائی کا اطاعت وہ تابعداری کی یا نہ فرمانی حتی کہ انسان کے اپنے اعضاء بھی اس کے خلاف گواہی دیں گے، ایماند دار ،اور متقی ،و پرہیزگار ،انسان کے حق میں زمین گواہی دے گی ،چنانچہ زمین یوں کہے گی؛ اس انسان نے میری پیٹھ پر نماز پڑھی، روزہ رکھا ،حج کیا ،جہاد کیا۔یہ سن کر متقی شخص بہت زیادہ خوش ہوگا ۔اور کافر وہ نافرمان کے خلاف زمین گواہی دیتے ہوئے یوں کہے گی ؛اس نے میری پیٹ پر شرک کیا، زنا کیا ، یا شراب پی، حرام کھایا ،اب اس کے لیے ہلاکت و بربادی ہے ۔اگر ارحم الراحمین نے اس پر کڑا محاسبہ کیا۔صاحب ایمان وہ ہے جو جسم کے تمام اعضاء کے ساتھ اللہ تعالی سے ڈر رکھتا ہو۔ جیسا کہ کسی اللہ والے نے فرمایا :سات باتوں میں اللہ تعالی کے خوف کا پتہ چل جاتا ہے۔
نمبر ایک :اس کی زبان غلط بیانی ،غیبت ،چغلی، تہمت ،اور فضول بولنے سے بچی ہو ،اور اللہ تعالی کا ذکر کرنے تلاوت کلام پاک کرنے اور دینی علوم سیکھنے میں لگی ہو۔
نمبر دو :اس کے دل سے عداوت ،بہتان، اور مسلمان بھائیوں کا حسد نکل جائے، کیونکہ حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے ،جیسا کہ فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے،الحسد ياكل الحسنات كما تاكل النار الحطب،(حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے)
نمبر تین: نظر حرام، کھانے پینے سے، اور حرام لباس وغیرہ سے محفوظ رہے ،اور دنیا کی طرف لالچ کی نظر سے نہ دیکھے، بلکہ صرف عبرت پکڑنے کے لیے اس کی طرف دیکھے اور حرام پر تو کبھی اس کی نگاہ بھی نہ پڑے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،جس نے اپنی آنکھ حرام سے بھری اللہ تعالی بروز قیامت کی آنکھ کو آگ سے بھردے گا،
نمبر چار : پیٹ میں حرام غزا نہ جائے، یہ گناہ کبیرہ ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، بنی آدم کے پیٹ میں جب حرام کا لقمہ جاتا ہے تو ، زمین وہ آسماں کا ہر فرشتہ اس پر لعنت بھیجتا ہے، جب تک کہ وہ لقمہ اس کے پیٹ میں رہے گا ،اگر اسی حالت میں مر گیا تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔
نمبر پانچ :جانب حرام کی طرف اس کا ہاتھ نہ جائے بلکہ اطاعت خداوندی کی طرف اپنے ہاتھ کو بڑھائے۔
نمبر چھ: اس کا قدم اللہ تعالی کی نافرمانی میں نہ چلے، بلکہ صرف اس کی اطاعت وہ خوشنودی میں رہے عالموں اور نیکوں کی طرف حرکت کرے۔
نمبر سات: عبادت وہ مجاہدہ انسان کو چاہے کہ خالص اللہ کے لیے کرے، ریا کاری وہ منافقت سے بچتا رہے اگر ایسا کیا تو ان لوگوں میں شامل ہوگا جن کے متعلق ارشاد خداوندی ہے۔
والآخرة عند ربك للمتقين(اور تیرے رب کے نزدیک اخرت ڈرنے والوں کے لیے ہے)۔
دوسری آیت میں ارشاد خداوندی ہے(ان المتقين في مقام امين)۔
بے شک متقی امن والے مقام میں ہوں گے۔
گویا خدا تعالی یہ فرما رہا ہے کہ یہی لوگ قیامت کے دن دوزخ سے چھٹکارا پائیں گے ،اور ایماندار آدمی کو چاہیے کہ وہ بیم و رجا کے درمیان میں ہے۔وہی اللہ تعالی کی رحمت کا امیدوار ہوگا اوراس سے مایوسی و نا امیدی نہیں رکھیے گا۔ اللہ تعالی نے فرمایا”(لا تقنطوا من رحمه الله)، اللہ تعالی کی رحمت سے نا امید نہ ہو ۔پس اللہ تعالی کی عبادت کرے برائی کے کاموں سے منہ موڑ لے ،اور اللہ تعالی کی طرف ہم تن متوجہ ہو۔۔