طہارت کے مسائل

طہارت کے مسائل طہارت کے مسائل

   طہارت کے مسائل

طہارت کی لغوی تعریف

اس پانی کا نام ہے جس سے  پاکی حاصل کی جا چکی ہو۔

طہارت کی اصطلاحی تعریف

نجاست حقیقی یا نجاست حکمیہ سے پاک ہونے کو طہارت کہتے ہیں۔

اللہ تعالی قرآن پاک میں فرماتا ہے

يا ايها الذين امنوا اذا قمتم الى الصلاة فاغسلوا وجوهكم وأيديكم إلى المرافق وامسحوا برؤوسكم وأرجلكم إلى الكعبين۔

ترجمہ  :اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے کھڑے ہونے کا ارادہ کرو تو دھو لیا کرو اپنے چہرے کو اپنے  ہاتھوں  کوکہنیوں  تک اور مسح کرو اپنے سروں کا اور اپنے پیروں کو ٹخنوں تک دھو لو۔

احناف کے نزدیک وضو میں چار چیزیں فرض ہے نمبر ایک:ایک مرتبہ سارا منھ دھونا ۔نمبر دو: ایک دفعہ کہنیوں سمیت دونوں ہاتھ دھونا ۔نمبر تین :ایک بار چوتھائی سرکا مسح کرنا ۔نمبر چار: ایک ایک مرتبہ ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں دھونا۔

ان میں سے اگر ایک چیز بھی چھوٹ جائے گی یا بال برابر بھی سوکھی رہ جائے گی تو وضو نہ ہوگا ۔امام شافعی کے نزدیک فرائض وضو چھ ہیں ،چار تو وہی ہے جو آیات وضو میں مذکور ہے۔ “اور دو اس کے علاوہ “نمبر ایک: نیت ۔نمبر دو: ترتیب ۔امام مالک کے نزدیک فرائض وضو سات ہے۔ چار تو وہی فرائض ہے جو قرآن میں بیان کیے گئے ہیں۔ اور” تین اس کے علاوہ  “نمبر ایک: نیت کرنا۔ نمبر دو: پے در پے دھونا۔ نمبر تین: رگڑنا۔اور امام حنبل کے نزدیک بھی سات چیزیں فرض ہے۔ فرق یہ ہے کہ مالک کے نزدیک سات چیزیں دلک(رگڑنا) ہے ۔حنبلی کے نزدیک اس کے بجائے ترتیب ہے۔

فرض کی تعریف: فرض وہ حکم ہے جس میں زیادتی اور کمی کا احتمال نہ ہو اور ایسی دلیل  قطعی سے ثابت ہو جس میں کسی طرح کا کوئی شک و شبہ نہ ہو(نور الانوار/ص 170۔فتح  القدیر

سر کی کتنی مقدار پر مسح کرنا فرض ہے

“اس سلسلے میں دو مذہب ہیں”

نمبر ایک :امام مالک کے نزدیک اور امام احمد کے ایک قول کے مطابق پورے سر کا مسح کرنا فرض ہے ،عینی شرح هدایه۔ج۔1۔ص 64

نمبر دو :حنفیہ ،شافعیہ ،حنابلہ ،کے نزدیک بعض سر پر مسح کرنے سے فرضیت ادا ہو جاتی ہے، اور پورے سر پر مسح کرنا مسنون ہے ۔پھر تحدید کے سلسلے میں اختلاف ہو گیا ؛حنفیہ کے نزدیک” پیشانی کی مقدار سر کے حصہ پر مسح کرنا فرض ہے۔     امام شافعی کے نزدیک؛ کم سے کم وہ مقدار جس پر مسح کا اطلاع ہو سکتا ہو اگر  چے ایک ہی بال کیوں نہ ہو، اس پر مسح کرنے سے فرض ادا ہو جائے گا۔(معارف السنن۔ج۔1۔ص:174

امام مالک، و امام احمد کی دلیل۔وہ حدیث ہے جس کے الفاظ ہیں’فبدا بمقدم راسه ثم ذهب بيده الى المؤخر الراس ثم رداهما الى مقدمه

یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقدم را س مسح شروع کیا اور گردن تک کھینچ کر لے گئے اور مسح کرتے ہوئے دونوں ہاتھ سر کے اگلے حصے پر لے آئے۔

“اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پورے سر کا مسح کرنا فرض ہے”

مگر احناف نے اس کا جواب دیا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کے اندر پورے سر کے مسح کو فرض فرمایا ہے۔ یہ حکم بطور فرض نہیں ہے، بلکہ بطور کمال فضیلت ہے ۔یہ ایسا ہی ہے جیسے تین تین مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو کرنا ثابت ہے لیکن یہ تین تین مرتبہ فرض نہیں ہے بلکہ ایک مرتبہ فرض ہے۔طحاوی۔ج۔1۔ص۔27

امام شافعی کی دلیل: آیت وضو میں مسح رأس  مطلقا مذکور ہے،والمطلق يجري على إطلاقه کے قاعدہ کے مطابق مطلق سر کا مسح فرض ہوگا۔

جواب:  وضو میں سر کا مسح مطلق نہیں بلکہ مجمل ہے،اور مجمل پر عمل کے لیے متکلم کی جانب سے بیان ضروری ہے ۔اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل یعنی مسح علی الناصیه اس مجمل کا بیان ہے،لهذا مسح علی الناصیه  فرض  ہو گا۔

“احناف کی دلیل”

عن أنس بن مالك قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يتوضأ عليه  عمامۃ  قطریۃ فأدخل يده من تحت العمامة فمسح مقدم رأسه۔أبوداود،ج1،ص،19

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کر رہے تھے ،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر قطری  عمامہ تھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ عمامہ کے نیچے داخل کیے پھر سر کے اگلے حصہ کا مسح کیا۔

ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے اگلے حصے کا مسح کیا ہے اور تمام مقدم رأس ہی چوتھا ہی سر ہے،جس کو ناصیہ کہتے ہیں،فی فتح القدیر،ج۔1،ص،15


جہنم سے بچانے والے اعمال

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *