سمرقند فتح نہیں ہوا بلکہ دل فتح ہوئے chapter 3
سمرقندی کی امیرالمومنین سے ملاقات
جب یہ سمر قندی امیر المومنین کے دروازے پر پہنچا تو دروازے پر رونے کی آواز آنے لگی تو امیر المومنین نے پوچھا کہ یہ رونی کی آواز کس کی ہے- تو بتایا گیا کہ دو بچے آپس میں لڑ کر ایک دوسرے کا سر پھوڑ لیے ہیں امیر المومنین خود جا کر ان بچوں کو چھڑایا اور پھر ان کو الگ کیا۔ پھر جب واپس آئے تو دیکھے کہ ان کے سامنے ایک آدمی ہے امیر المومنین نے اس سے پوچھا کیا ماجرا ہے تو اس نے کہا کہ ہم سمرقند والوں پر ظلم کیا گیا ہےامیر المومنین نے کہا واللہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنوں اور غیروں کے ساتھ انصاف کرنے کا حکم دیا ہےسمر قندی نے وہاں کے گورنر کی شکایت کی اورکہا کہ وہاں پر جو حکومت قابض ہوئی ہے وہ بغیر دعوت اسلام کے بغیر جزیہ طلب کیے اور بغیر اعلان جنگ کیے وہ ہم سمرقند والوں پر قابض ہو گئے امیر المومنین نے کہا اے غلام جاؤ قلم اور کاغز لاؤ امیر المومنین نے اس پر کچھ تحریر فرمائے اور وہاں کے گورنر کے پاس لے جانے کو کہا اب سمرقندی دمشق سے نکل کر واپس اپنے وطن کی طرف روانہ ہوا لیکن اب اس کا جی چاہ رہا تھا کہ اب میں دمشق نہ چھوڑوں کیونکہ وہ اسلام کے تمام مناظر کو دیکھ چکا تھا لیکن اب اس کو سمرقند کو آزاد بھی کرنا تھا اب اس نے دمشق کے باہر نکلا تو سب لوگ اسے مسافر سمجھ کر اس کے لیے کھانے پینے کا انتظام کر رہے تھے اگر اس کو سفر میں کوئی مسجد دکھتی تو اس میں داخل ہو جاتا اور نمازیوں کے ساتھ مل کر کھڑا ہو جاتااور یہ سوچتا کہ یہ اسلام کتنا اچھا مذہب ہے اس میں امامت ایک کرتا ہے دوسرے اقتدا کرتے ہیں نہ اس میں غریب ہے نہ امیر سب ایک صف میں کھڑے ہوئے ہیں یہ دیکھ کر اسے اپنی سمرقند کی مندیر یاد آتی ہے کہ وہاں پر صرف وہی شخص جا سکتا ہے جو دولت مند ہو اب وہ اسلام کو اپنے اندر خفیہ رکھتا ہے جب وہ سمرقند پہنچتا ہے اور مندر کے کاہنوں اسے دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں کہ یہ کس طرح زندہ بچ کر واپس آگیا سمرقند کے کاہنوں نے کہا کہ اب تیرے پاس کیا ہے اس نے کہا کہ بادشاہ سلامت نے مجھے خط دیا ہے تو سب کا کاہنوں نے کہا جاؤ اسے گورنر کے سامنے پیش کردو گورنر نے جب یہ خط کھولا اور پڑھا کہا کہ جاؤ تمام سمرقند کے مسلمان سمرقند کی مسجد میں جمع ہو جائے اب ایک طرف سمر قند کے لوگ بیٹھے ہوئے تھے دوسری طرف عرب کے لوگ بیٹھے ہوئے تھے جب گورنر نے کہا کہ تم نے اس کو سمرقند کو کس طرح فتح کیا ہے تو سمرقند کے لوگوں نے کہا کہ یہ ہم سے کچھ بتلائے بغیر نہ جنگ کا اعلان کیا ہے نہ جزیہ طلب کیے ہیں نہ اسلام کی دعوت دی بلکہ یہ ہم پر خود بخود غالب آگئے ہیں تو گورنر نے کہا اے تمام مسلمانوں تم لوگ اس سمرقند کو چھوڑ دو اور باہر چلے جاؤ پھر جس طرح قانون ہے اسلامی اسی طرح سمرقند کو فتح کرنا جب یہ فیصلہ آیا تو تمام مسلمان سپاہی اپنا سامان لے کر سمرقند کے باہر چلے گئے اور کہنے لگے اے سمرقند والو ہم تم کو اسلام کی دعوت پیش کرنے آئے ہیں اگر تم اسلام کی دعوت قبول نہیں کرو گے تو تم کو اتنا جزیہ دینا پڑے گا اگر تم جزیہ بھی نہیں دے سکتے تو ہم سے جنگ کرو جب یہ تمام سمرقند والے دیکھے تو پریشان ہو گئے اس کے بعد کاہنوں نے کہا کہ تو کس کے پاس جا کر آیا ہے تو اس نے کہا کہ میں اسے عادل بادشاہ ایسے حکمران کے پاس جا کرآیا ہوں جو کبھی نا انصافی نہیں کیا اب اس شخص نے کہا کہ تم اس لشکر سے نہیں لڑ سکو گے کیونکہ اس لشکر کے اندر بہت سی قوتیں ہیں اور تم لوگ اس بے جان مرتیوں کے اوپر بھروسہ کرتے ہیں وہ ایسے خدا کے اوپر بھروسہ کرتے ہیں جو حق ہے تو پھر کاہنوں نے کہا پھر تیرا کیا خیال ہے تو سمرقندی نے کہا کہو اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمد عبدہ ورسولہ تو یہ سن کر تمام کاہن اور سمرقند کے پجاریوں نے بولا اشہد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمد عبدہ ورسولہ پھر اس کے بعد تمام سمرقند نعرہ تکبیر سے گونج اٹھا
(اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سمرقند فتح نہیں ہوا بلکہ دل فتح ہوئی)
============================================