آج کی حقیقت
موبائل: ازدواجی زندگی کا سب سے بڑا دشمن
آج کی تیز رفتار زندگی میں، موبائل فون ایک ایسا آلہ بن چکا ہے جو ہمیں دنیا سے جوڑتا ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہی موبائل ہمیں اپنے قریبی رشتوں سے بھی دور کر رہا ہے۔ ازدواجی زندگی میں سب سے بڑی دراڑ ڈالنے والا اگر کوئی ہے، تو وہ ہمارا موبائل ہے۔
ایک عام مگر افسوسناک منظر
تصور کریں: ایک کمرہ، جس میں میاں اور بیوی ایک ساتھ بیٹھے ہیں، مگر حقیقت میں وہ ایک دوسرے کے ساتھ نہیں، بلکہ ہر کوئی اپنی موبائل اسکرین میں گم ہے۔ ایک فیس بک پر اسکرول کر رہا ہے، دوسرا یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھ رہا ہے، اور دن کا قیمتی وقت یونہی ضائع ہو رہا ہے۔
یہ کوئی فرضی کہانی نہیں، بلکہ آج ہر دوسرے گھر کا المیہ ہے۔ ازدواجی رشتے، جو محبت، توجہ اور ایک دوسرے کی قربت کے طلبگار ہوتے ہیں، وہ موبائل کے بے جا استعمال کی وجہ سے کمزور پڑ رہے ہیں۔
گھر میں موبائل کے لیے ایک جگہ مختص کریں
اس مسئلے کا ایک بہترین حل یہ ہے کہ گھر میں داخل ہوتے ہی موبائل کے لیے ایک مخصوص جگہ مقرر کر دیں، جہاں آپ کا فون رکھا جائے۔ جب تک کوئی ضروری کال نہ آئے، اسے مت اٹھائیں۔
اس ایک عادت سے:
آپ گھر میں زیادہ حاضر دماغ ہوں گے۔
بیوی اور بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزاریں گے۔
ذہنی سکون اور باہمی محبت میں اضافہ ہوگا۔
کیا ہم واقعی سمجھدار ہیں؟
ہم دن بھر کام میں مصروف رہتے ہیں، پیسہ کماتے ہیں، لیکن گھر آ کر بھی موبائل کے ذریعے “باہر کی دنیا” میں کھو جاتے ہیں۔ کیا یہ عقلمندی ہے؟
اپنے بچوں کے ساتھ کھیلیں، انہیں وقت دیں۔
اپنی بیوی کے ساتھ بات کریں، ان کی باتیں سنیں۔
کھانے کے وقت اور رات سونے سے پہلے موبائل کو مکمل طور پر نظر انداز کریں۔
اگر آپ لاکھوں کماتے ہیں، مگر اپنی فیملی کے ساتھ رہ کر بھی ان کے ساتھ نہیں ہوتے، تو اس کمائی کا کیا فائدہ؟
حقیقی خوشی کہاں ہے؟
حقیقی خوشی نہ تو فیس بک پر ہے، نہ انسٹاگرام پر، نہ ہی یوٹیوب ویڈیوز میں۔ اصل خوشی اپنے پیاروں کے ساتھ ہنسی مذاق میں، ان کی باتوں میں، ان کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھنے میں ہے۔
آج سے یہ عہد کریں کہ موبائل کے غلام نہیں بنیں گے، بلکہ اپنی ازدواجی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اپنی عادتیں بدلیں گے۔
أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِن نَّصِيرٍ
(فاطر، 35: 37)
’’(ارشاد ہوگا:) کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو شخص نصیحت حاصل کرنا چاہتا، وہ سوچ سکتا تھا اور (پھر) تمہارے پاس ڈر سنانے والا بھی آچکا تھا، پس اب (عذاب کا) مزہ چکھو سو ظالموں کے لئے کوئی مددگار نہ ہوگا
یہی وہ بنیادی فلسفہ ہے جس کے باعث اسلام میں وقت کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اہسے ضائع کرنے کے ہر پہلو کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ زیرِ نظر مضمون کا مقصد تحریر بھی یہی ہے کہ ہمارے اندر وقت کی قدر و منزلت اجاگر ہو اور ہم ہر ساعت کو بہتر طریقہ سے گزارنے کے قابل بن جائیں تاکہ ہمیں دنیا اور آخرت کی فوز و فلاح نصیب ہو۔
1۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہرمایا :
نہعمَتَانہ مَغْبہونٌ ہہيهہمَا کَثہيرٌ مہنَ النَّاسہ : الصہّحَّةہ وَالْہَرَاغہ.
(بخاري، الصحيح، کتاب الرقاق، باب لا عيش إلا عيش الآخرة، 5: 2357، رقم: 6049)
(ترمذي، السنن، کتاب الزهد، باب الصحة والفراغ. . . ، 4: 550، رقم: 2304)
’’دو نعمتوں کے بارے میں اکثر لوگ خسارے میں رہتے ہیں: صحت اور فراغت۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ انسان کو جسمانی صحت اور فراغت اوقات کی نعمتوں سے نوازتا ہے تو اکثر سمجھتے ہیں کہ یہ نعمتیں ہمیشہ رہنی ہیں اور ان کو کبھی زوال نہیں آنا حالانکہ یہ صرف شیطانی وسوسہ ہوتا ہے۔ جو ربہ کائنات ان عظیم نعمتوں سے نوازنے والا ہے وہ ان کو کسی وقت بھی چھین سکتا ہے لہٰذا انسان کو ان عظیم نعمتوں کی قدر کرتے ہوئے انہیں بہتر استعمال میں لانا چاہیے۔