زید بغداد

نام تھا زید۔ نام تھا زید۔

زید بغداد

بغداد کے ایک چھوٹے سے محلے میں، ایک ننھا سا لڑکا رہتا تھا — نام تھا زید۔

وہ چھوٹا سا تھا، مگر اُس کا خواب بہت بڑا تھا — دنیا گھومنے کا!

وہ اکثر دریائے دجلہ کے کنارے بیٹھا، کشتیوں کو جاتا دیکھتا، اور تصور میں خود کو ان جہازوں کا کپتان سمجھتا۔

ایک دن، بغداد کی گلیوں میں آواز آئی:

“بحری جہاز روانہ ہو رہا ہے! دنیا دیکھنے کا سنہری موقع !”

زید کا دل دھڑک اٹھا۔ وہ چپکے سے ایک چھوٹی سی پوٹلی باندھ کر گھر سے نکل پڑا۔

وہ ایک جہاز میں چھپ کر بیٹھ گیا —

نہ کسی کو خبر، نہ کوئی اجازت… بس خواب اور ہمت اُس کے ساتھ تھی۔

سمندر کی ہوائیں، پرندوں کی آوازیں، اور پانی کے نیلے تھپیڑے زید کے دل کو خوشی دے رہے تھے۔

مگر …..

چند دن بعد، طوفان آ گیا۔

بادل گرجے، بجلی چمکی، اور زید جس جہاز میں تھا، وہ راستہ بھول گیا۔

آنکھ کھلی تو خود کو ایک انوکھے جزیرے پر پایا۔

یہ کوئی عام جگہ نہ تھی —

یہ تھا بونوں کا دیس !

یہاں سب کچھ چھوٹا تھا :

چھوٹے درخت، ننھی گھریاں، بونوں جیسے چھوٹے چھوٹے لوگ — مگر عقل میں بڑے !

زید حیران رہ گیا۔

بونے بولے:

“ہم تم جیسے بڑے انسانوں سے ڈرتے ہیں، مگر تم تو خود ہم جتنا ہو !

وہ ہنسے، زید ہنسا — اور دوستی ہو گئی۔

بونوں نے زید کو جادوئی چمکنے والی کتابیں دکھائیں، اونچی اڑنے والی پتنگیں، اور ایک ایسا کمبل جس پر بیٹھ کر تم ہوا میں تیر سکتے تھے۔

زید نے اُنہیں بغداد کے قصے سنائے — خلیفہ ہارون الرشید کے، بازاروں کے، چراغ والے قصے۔

وہ بونوں کے دیس کا مہمان بن گیا —

لیکن دل تو بغداد میں تھا۔

ایک دن، بونوں کے بادشاہ نے اُسے الوداعی تحفہ دیا —

ایک جادوئی قطب نما، جو اُسے واپس بغداد پہنچا سکتا تھا۔

زید نے بونوں کو گلے لگایا، شکریہ ادا کیا، اور کہا :

“جب بڑا بنوں گا، کہانیاں لکھوں گا… تم سب کے بارے میں !

جب وہ بغداد واپس پہنچا، تو اُس کی آنکھوں میں خواب تھے… اور دل میں ایک خزانہ۔

یادوں کا، دوستی کا، اور ایک ایسی کہانی کا… جو صرف قسمت والوں کو نصیب ہوتی ہے۔


اگر دو خدا ہوتے سنسار میں

زید بن حارثہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *