مالی غربت سے زیادہ خطرناک ذہنی غربت ہے اور ہم “ذہنی غربت” کا شکار ہیں ۔
ہندوستان میں جب بھی غریبی اور معاشرتی مسائل پر بات کی جاتی ہے، ہم فوراً مالی غربت کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس معاشرے میں سب سے بڑی غربت ذہنی غربت ہے۔ یہ وہ غربت ہے جو ہمیں اپنے اندر سے باہر آ کر نظر آتی ہے، اور یہ اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ پوری زندگی کو مسخ کر دیتی ہے۔
اسی سے جڑا ایک منظر غالباً ستائیسویں روزے میری آنکھوں کے سامنے آیا، جس نے مجھے اس حقیقت سے دوبارہ آشنا کیا کہ ہندوستان میں ذہنی غربت کا عذاب کتنا زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہے۔
شام کے چھ بج رہے تھے، اور میں اپنی بائیک پر سگنل کھلنے کا انتظار کر رہا تھا۔ اچانک میری نظر ایک سفید کرولا پر پڑی، جو دائیں جانب سے آ کر بائیں طرف مڑنے والی تھی۔ مگر اصل منظر وہ نہیں تھا—اصل منظر وہ پندرہ بیس لوگ تھے جو اس گاڑی کے ساتھ ساتھ بھاگ رہے تھے، جیسے ان کی زندگی کا سب سے قیمتی خزانہ بس چند قدم دور ہو۔
ان کے چہرے اور لباس غربت کی مکمل تصویر تھے، مگر ان کی آنکھوں میں بھاگنے کی وحشت کسی اور ہی داستان سنا رہی تھی۔ گاڑی کے قریب پہنچنے کی تگ و دو میں کچھ لوگ ایک دوسرے کو دھکیل رہے تھے، کچھ زمین پر لڑکھڑا رہے تھے، مگر کسی کے قدم رک نہیں رہے تھے۔
جیسے ہی گاڑی ایک لمحے کے لیے رکی، ایک خاتون نے شیشہ نیچے کر کے ہاتھ باہر نکالا۔ اس کے ہاتھ میں بچوں کے ریڈی میڈ سوٹ تھے۔ لیکن اگلے ہی لمحے، جو منظر میرے سامنے تھا، وہ دل دہلا دینے والا تھا۔ لوگوں نے بے دردی سے ایک دوسرے سے کپڑے چھیننے کی کوشش کی، جیسے یہ ان کی زندگی کی آخری امید ہو۔ کسی کے ہاتھ میں آدھا کپڑا تھا، کسی کا بازو کسی اور کی گرفت میں تھا، اور سب ایک جنون میں مبتلا تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کسی بھوک سے مر رہے ہوں، اور یہ کپڑے ان کی آخری امید ہوں۔ اور مجھے اس وقت یہ احساس ہوا کہ یہ صرف مالی غربت کا نہیں، بلکہ ذہنی غربت کا مسئلہ تھا۔
یہ صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے۔ آپ نے بھی ضرور دیکھا ہوگا کہ جب کہیں کچھ مفت بانٹا جا رہا ہو، تو ہم ہندوستانی کس طرح بے دریغ اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ رمضان میں سڑکوں پر افطار کے وقت کھانے پینے کی اشیاء تقسیم کی جاتی ہیں، اور تب یہ منظر عام ہوتا ہے—لوگ جو پہلے سے کھانے کا انتظام کر چکے ہوتے ہیں، وہ بھی رک کر مزید لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک لمحے میں یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے برابر کوئی ایسا شخص بھی کھڑا ہے جسے واقعی ضرورت ہو۔
یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جو نہ صرف حیران کن بلکہ افسوسناک بھی ہوتا ہے۔ جب میں نے اس روز وہ منظر دیکھا، تو میرے ذہن میں ایک سوال اٹھا: یہ کیا ہے جو ہمیں اس قدر بے پرواہ اور خودغرض بنا دیتا ہے؟ غربت محض مالی حالت کا نام نہیں، یہ ذہنیت کا بھی ایک روپ ہے—اور وہ بھوک جو ہمارے دماغوں میں بیٹھ چکی ہے، وہ جسمانی بھوک سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔
ہندوستان میں یہ ذہنی غربت روزمرہ زندگی میں نظر آتی ہے۔ جیسے ہی کوئی چیز مفت دستیاب ہوتی ہے، لوگ اس پر ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے یہ ان کی آخری امید ہو۔ کئی بار تو صورتحال اس قدر بگڑ جاتی ہے کہ تقسیم کرنے والا خود کو بچانے کی کوشش کرتا ہے، کیونکہ ہجوم اس پر حملہ آور ہونے لگتا ہے۔ یہ محض بھوک نہیں، بلکہ سوچ کی تنگ دستی ہے—ایسی تنگ نظری جس میں لوگ اپنی ضرورت سے زیادہ لینے کے لیے دوسروں کی محرومی کا بھی خیال نہیں رکھتے۔
یہ وہ غربت ہے جو خالی جیبوں سے زیادہ، خالی ذہنوں میں پائی جاتی ہے۔ جو کسی قوم کو صرف مالی طور پر نہیں، بلکہ اخلاقی اور فکری طور پر بھی برباد کر دیتی ہے۔ آپ نے وہ مناظر دیکھے ہوں گے—جہاں خیرات بٹ رہی ہو، جہاں کوئی مفت چیز تقسیم ہو رہی ہو، اور لوگ اس پر اس وحشت سے جھپٹتے ہیں جیسے زندگی اور موت کا سوال ہو، چاہے ان کے پاس پہلے ہی سب کچھ موجود ہو۔
یہ بھوک پیٹ کی نہیں، یہ آنکھوں، ضمیر، اور سوچ کی بھوک ہے۔ یہ وہ ہوس ہے جو ہاتھوں کو پھیلا کر لینے پر مجبور کرتی ہے، بغیر یہ سوچے کہ کس کی ضرورت زیادہ ہے۔ جب حلال و حرام، عزت و بے غیرتی، اور ضرورت و لالچ کے فرق مٹنے لگیں، تو سمجھ لیں کہ مسئلہ غربت نہیں، ذہنی دیوالیہ پن ہے۔
غربت ایک آزمائش ہو سکتی ہے، مگر ذہنی غربت ایک لعنت ہے۔ یہ وہ زنجیر ہے جو انسان کو ہمیشہ محتاج رکھتی ہے، چاہے اس کے پاس دنیا بھر کی دولت کیوں نہ ہو۔ جس دل میں قناعت نہ ہو، وہ ہمیشہ خالی رہتا ہے۔ جس آنکھ میں ہوس بسی ہو، اسے کبھی آسودگی نصیب نہیں ہوتی۔ یہ غلامی کی بدترین شکل ہے—نہ کسی انسان کی، بلکہ اپنی خواہشات کی، اپنی کمزوریوں کی، اپنی لالچ کی۔
کبھی سوچا ہے، ہم سب اللہ سے مالی خوشحالی کی دعا تو کرتے ہیں، مگر ذہنی غربت سے نجات کی دعا کیوں نہیں مانگتے؟ کیونکہ اصل قید وہ نہیں جو جسم پر پڑتی ہے، بلکہ وہ ہے جو سوچ کو جکڑ لیتی ہے۔ اگر ہم حقیقت میں سکون، عزت، اور خوشحالی چاہتے ہیں، تو سب سے پہلے اپنی ذہنی بھوک کو ختم کرنا ہوگا—اس وحشت کو، جو ہمیں اندھا، بہرا اور بے حس بنا چکی ہے۔
اللہ ہمیں خالی جیبوں سے نہیں، خالی دلوں اور خالی ذہنوں کی غربت سے محفوظ رکھے۔ کیونکہ یہی وہ غربت ہے جو برباد بھی کرتی ہے، اور یہی وہ غربت ہے جس سے بچنا اصل نجات ہے۔
صلاح الدین ایوبی کی مختصر زندگی
ماشاءاللہ