خَولہ بنت ثعلبہ
یہ قصہ ایک ایسی عظیم عورت خَولہ بنت ثعلبہ کا ہے، جس کا ذکر قرآن پاک میں بھی آیا۔
واقعہ کی تفصیل
ایک دن خولہ کے شوہر اوس بن صامت نے غصے میں ان سے کہا
تم مجھ پر میری ماں کی طرح حرام ہو ۔
یہ جملہ اس وقت ظہار کہلاتا تھا اور اس کا مطلب تھا کہ شوہر بیوی سے ہمیشہ کے لیے علیحدگی اختیار کر لیتا ہے، جس کے بعد رجوع ممکن نہیں ہوتا تھا۔
جب خولہ نے یہ بات سنی، تو وہ سخت پریشان ہوئیں اور فوراً نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔
انہوں نے اپنے شوہر کی غربت، اپنی قربانیوں، اور بچوں کی حالت زار کا ذکر کرتے ہوئے ظہار کے حکم کے بارے میں سوال کیا۔
رسول اللہ ﷺ ان کے سوالات کو سنتے رہے، اور خولہ کی بے بسی اور دکھ سن کر خود بھی غمگین ہو گئے۔
قرآن میں ظہار کا حکم:
اسی دوران اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی، جس میں اس مسئلے کا حل پیش کیا گیا۔
سورۃ المجادلہ کی آیات میں کہا گیا
“اللہ نے اس عورت کی بات سن لی، جو تم سے اپنے شوہر کے بارے میں جھگڑ رہی تھی اور اللہ سے فریاد کر رہی تھی۔ اور اللہ تم دونوں کے مکالمے کو سن رہا تھا۔ بے شک اللہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے ۔
(المجادلہ: 1)
کفارہ ظہار
اللہ تعالیٰ نے ظہار کا کفارہ مقرر فرمایا ۔
1۔ایک غلام آزاد کرنا۔
2۔اگر یہ ممکن نہ ہو تو مسلسل دو مہینے کے روزے رکھنا۔
3۔اگر روزے بھی نہ رکھ سکے تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانا۔
خولہ کی عظمت
خولہ کی قربانیوں اور استقامت کو دیکھتے ہوئے یہ حکم نازل ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے اوس بن صامت کو کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا، اور ان کے نکاح کو برقرار رکھا۔
عمر بن خطاب اور خولہ ،
خولہ کا رتبہ اتنا بلند تھا کہ جب وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سامنے آئیں اور ان سے مخاطب ہوئیں، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انتہائی احترام سے ان کی بات سنی۔ جب کسی نے پوچھا کہ آپ اس عورت کے لیے اتنا وقت کیوں دے رہے ہیں؟ تو حضرت عمر نے فرمایا
یہ وہ عورت ہے جس کی بات اللہ نے سات آسمانوں کے اوپر سے سنی۔ تو کیا عمر اس کی بات نہ سنے؟
سبق
یہ قصہ ہمیں سکھاتا ہے کہ عورت کے حقوق کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہر مظلوم کی فریاد سنتا ہے، اور ظالم کو اس کا حساب دینا ہوگا۔ یہ خولہ بنت ثعلبہ کی استقامت، صبر، اور عزت نفس کی اعلیٰ مثال ہے۔
بہت خوب جناب