قرآن کریم سات لغات پر نازل ہوا ہے۔
قرآن عظیم ایک جگہ کس طرح جمع کیا گیا۔
قرآن عظیم ایک جگہ کس طرح جمع کیا گیا اور کون اس کے لیے باعث بنا تو اس پورے قصہ کے پس منظر میں ہے کہ یہ سارا کام حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی کوششوں سے ہوا ہے، عہد خلافت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کا تھا ،پھر دور عثمان رضی اللہ تعالی عنہ میں اختلاف قرأت کے جھگڑے اٹھ کھڑے ہوئے اس لیے حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالی عنہ کی کوششوں سے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک کمیٹی بنائی اور قرآن عظیم کو صرف لغت قریش پر جمع کر دیا کیونکہ قرآن ابتداء میں اسی لغت پر اتارا گیا تھا، تو یہ قرآن کے الفاظ میں تغیر و تبدل نہیں ہے بلکہ ابتداء میں جس وسعت لغات کے رخصت و اجازت تھی اس رخصت کو ختم کر کے امت کو اصل لغت پر جمع فرما دیا اور یہ بہت بڑا کارنامہ تھا جو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی قسمت میں آیا۔
قرآن کریم سات لغات پر نازل ہوا ہے۔
عن عمر بن الخطاب قال : سمعت هشام بن حكيم بن حزام يقرأ سورة الفرقان على غير ما أقرؤها ، وكان رسول الله – صلى الله عليه وسلم – أقرأنيها ، فكدت أن أعجل عليه ، ثم أمهلته حتى انصرف ، ثم لببته بردائه ، فجئت به رسول الله – صلى الله عليه وسلم – فقلت : يا رسول الله إني سمعت هذا يقرأ سورة الفرقان على غير ما أقرأنيها ، فقال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – : أرسله : اقرأ ، فقرأ القراءة التي سمعته يقرأ ، فقال رسول الله – صلى الله عليه وسلم هكذا أنزلت ، ثم قال لي : اقرأ ، فقرأت ، فقال : هكذا أنزلت إن هذا القرآن أنزل على سبعة أحرف فاقرءوا ما تيسر منه ) . متفق عليه واللفظ لمسلم .
ترجمہ
امیر المومنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن جب )میں نے ہشام بن حکیم حزام رضی اللہ تعالی عنہ کو سنا کے وہ سورۃ الفرقان اس طریقہ کے خلاف پڑھ رہے ہیں جس طریقہ کے مطابق میں پڑھتا تھا ،اور جس طریقہ سے مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سورۃ پڑھائی تھی، تو قریب تھا کہ میں ان کی طرف جھپٹ پڑوں( یعنی قرأت ختم کرنے سے پہلے ہی میں ان سے لڑ پڑوں) مگر پھر میں نے ان کو اتنی مہلت دی کہ وہ پڑھنے سے فارغ ہوئے ،اس کے بعد میں نے ان کی چادر ان کی گردن میں ڈال لی اور انہیں کھینچتا ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا ،اور عرض کیا کہ :یا رسول اللہ: میں نے ان سے سنا ہے کہ یہ سورۃ الفرقان اس طریقہ کے خلاف پڑھتے ہیں ،جس طریقہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وہ سورۃ پڑھائی ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمر “انہیں چھوڑ دو! پھر ہشام رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ تم پڑھو، چنانچہ ہشام رضی اللہ تعالی عنہ نے اسی طریقہ سے پڑھا جس طریقہ سے میں نے انہیں پڑھتے سنا تھا ،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قرأت سن کر فرمایا کہ یہ سورۃ اسی طرح اتاری گئی ہے ،پھر مجھ سے فرمایا کہ اب تم پڑھو، چنانچہ میں نے پڑھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری قرآت بھی سن کر فرمایا کہ یہ سورۃ اسی طرح اتاری گئی ہے، یاد رکھو کہ یہ قرآن سات طریقہ پر اتارا گیا ہے، لہذا ان میں سے جس طریقہ سے ہو سکے پڑھو( اس روایت کو
بخاری و مسلم نے نقل کیا ہے “مگر الفاظ مسلم کے ہے
(تفصیل)
عہد نبوی میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت ہشام رضی اللہ تعالی عنہ وغیرہ کے درمیان اختلاف قرأت اور اختلاف لغات کی وجہ سے ایک زبر دست تنازعہ پیدا ہو گیا تھا “اس حدیث میں اسی کا قصہ ہے “ان اعجل علیه” یعنی مجھے تو اتنا طیش آگیا کہ قریب تھا کہ میں نماز چھوڑ کر ان پر حملہ کرتا لیکن میں نے ضبط سے کام لیا “لببه“یعنی نماز سے فارغ ہو کر میں نے ان کی چادر ان کی گردن میں ڈالی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کھینچ لایا “ارسله“یعنی اس کو جو تم نے چادر سے کھینچ رکھا ہے اس کو چھوڑ دو۔
علی سبعه احرف”حدیث کا یہ ٹکڑا سمجھنا بہت دشوار ہے حتی کہ بعض علماء نے اس کومخفی حدیث شمار کیا ہے عام علماء کے اس جملے کے سمجھنے میں 40 اقوال ہے۔
سب سے آسان توجیہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ احرف .حرف کی جمع ہے اور حرف کا اطلاق لغت پر ہوتا ہے حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن سات لغات پر اترا ہے ۔قرآن کا نزول قریش کی لغت پر ہوا تھالیکن قریش کے علاوہ عرب کے مشہور چھ قبائل تھے سب کی لغات اور قبائل کے نام یہ ہیں۔
لغت قریش ( 2) لغت بنوطے (3)لغت بنو تمیم ( 4) لغت هوازن ( 5) لغت اہل یمن (6) لغت ثقیف (7) لغت هزیل۔
ان سات لغات کے تحت قرآن پڑھنا جائز قرار دیا گیا تھا اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر لغت میں سات لغات جاری تھیں بلکہ مجموعہ قبائل میں جو اختلافی لغات تھیں وہ مجموعی اعتبار سے سات تک پہنچ جاتی ہیں ۔نیز یہ حلال و حرام کا اختلاف نہیں تھا۔
—————————————–