kafr ko ache kam par badilah kisa diya jata hay

kafr ko ache kam par badilah kisa diya jata hay kafr ko ache kam par badilah kisa diya jata hay

کافر کو اچھے کام پر بدلہ کیسا دیا جاتا ہے

وعن أنس – رضي الله عنه – قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( إن الله لا يظلم مؤمنا حسنة يعطى بها في الدنيا ويجزى بها في الآخرة ، وأما الكافر فيطعم بحسنات ما عمل بها لله في الدنيا ، حتى إذا أفضى إلى الآخرة لم يكن له حسنة يجزى بها ) رواه مسلم .

ترجمہ اور حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی مومن کی نیکی کا اجر ضائع نہیں کرتا کیوں کہ اس کی اس نیکی کے سبب اس کو دنیا میں بھلائیاں دی جاتی ہے اور آخرت میں بھی اس کا اجر و ثواب دیا جائے گا ۔

اور کافر خدا کی خوشنودی کے لیے جو اچھے کام کرتا ہے اس کو اس کے بدلے میں اس دنیا میں کھلا پلا دیا جاتا ہے یہاں تک کہ جب وہ آخرت میں پہنچے گا تو اس کے نام اعمال میں ایسی کوئی نیکی نہیں ہوگی کہ جس کی وجہ سے اس کو وہاں اجر و ثواب دیا جائے اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کی ہے

تشریح

لا يظلم-یعنی اللہ تعالی کسی مسلمان کی نیکی کا ثواب اور اجر ضائع نہیں کرے گا اور اس کی نیکی کا بدلہ صرف دنیا تک محدود نہیں رہے گا بل کہ دنیا میں بھی اس کا اجر ملے گا اور آخرت میں بھی اس کا اجر ملے گا”لا يظلم”لا ينقص- کہ معنی میں ہے حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی ہر انسان کو اس کی بھلائی اور اچھے کام پر بدلہ عطا فرماتا ہے لیکن آخرت کے اجر و ثواب کے لیے ایمان اور توحید کے صحیح عقیدے کا ہونا ضروری ہے ۔چنانچہ جب کوئی مومن نیک کام کرتا ہے تو عقیدہ صحیح ہونے کی وجہ سے اس کو اس نیکی کا بدلہ دنیا میں بھی ملتا ہے

اور آخرت میں بھی ملتا ہے دنیا میں اس طرح کے اللہ تعالی اس کے مال و جان میں برکت دیتا ہے اس کی جان و مال کو ظاہری اور باطنی آفتوں بلیات سے محفوظ رکھتا ہے اور اس کو دنیا میں چین و سکون کی زندگی عطا کرتا ہے اور آخرت کا بدلہ اس طرح دیتا ہے کہ جب مرنے کے بعد مومن وہاں جائے گا تو اس کو اس کی نیکی پر اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے جنت اور جنت کے تمام نعمتیں عطا فرمائے گا۔

اس کے برعکس اگر کوئی کافر نیک کام کرتا ہے مثلا خدمت خلق میں لگا رہتا ہے فلاحی اور فراہی کاموں میں مدد کرتا ہے اصلاح بین الناس کی کوشش کرتا ہے عدل وانصاف کرنی کی کوشش کرتا ہے۔ تو چونکہ کافر کا عقیدہ اور ایمان نہیں ہوتا ہے اسی لیے وہ آخرت کے بدلے سے محروم ہیں ہاں ان کے اچھے کام پر اللہ تعالی دنیا میں اس کو بدلہ دے دیتا ہے مثلا جسمانی صاحب دے دیتا ہے فراغ رزق دے دیتا ہے

حکومت دے دیتا ہے اور دنیا کی عارضی نعمتوں سے اس کو لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے اور جب مر جاتا ہے تو آخرت میں اس کو سوائے سزا اور عذاب کے اور کچھ بھی نہیں ملتا رہ گیا وہ مومن جو دنیا میں گناہ کرتا ہے تو کبھی کبھی اللہ تعالی اس کو دنیا میں ہی اس کا بدلہ سزا کے طور پر دے دیتا ہے اور اخرت کے لیے اس کو پاک کر دیتا ہے۔

جنت اور دوزخ کن کن چیزوں میں پوشیدہ ہے

jant or dozakh kan kan chezon min posheedah hay
jant or dozakh kan kan chezon min posheedah hay

عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال حجبت النار بالشهوات وحجبت الجنة بالمكاره-متفق عليه إلا أن عند مسلم حفت بدل حجبت

ترجمہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دوزخ کی آگ شہوت یعنی خواہشات و لذات سے ڈھانکی گئی ہے اور جنت سختیوں اور مشقتوں سے ڈھانکی گئی ہے اس روایت کو بخاری اور امام مسلم نے نقل کیا ہے لیکن مسلم کی روایت میں حجبت یعنی ڈھانکی گئی ہے کہ بجائے حفت یعنی گھیری گئی ہے کا لفظ آیا ہے –

تشریح

حجبت۔یہ حجاب سے پردے کے معنی میں ہے کہ نسخہ میں حفت کا لفظ ہے وہ ڈھانپنے کے معنی میں ہے مطلب یہ ہے کہ جس طرح جنت اور دوزخ کی حقیقت میں بہت بڑا فرق ہے اسی طرح ان تک پہنچنے کے اسباب میں بھی بہت بڑا فرق ہے کیوں کہ ہر ایک کے سامنے پردے پڑے ہوئے ہیں ان پردوں کو پار کرنا ہوگا تو دوزخ جن پردوں میں ڈھانکی گئی ہے وہ انسان کی خواہشات ہے جن کو دوسرے الفاظ میں آزاد زندگی کہتے ہیں

جب انسان حرام اور حلال کی تمیز کو ختم کر کے رکھ دیتا ہے اور نفس و خواہشات کے مطابق آزاد زندگی گزارتا ہے اور شراب میں لگا رہتا ہے نہ عبادت پر آتا ہے اور نہ کسی گناہ سے اجتناب کرتا ہے تو گویا وہ دوزخ کےخوبصورت پردوں میں سفر کرتا ہے جو ہی یہ پردے ختم ہو جاتے ہیں سامنے دوزخ اور اس کی آگ ہے اس میں یہ انسان گرفتار ہو جاتا ہے گویا ان پردوں میں دوزخ کی آگ ڈھانپی گئی ہے۔

اسی طرح جنت کا معاملہ ہے کہ وہ امور تکلیفیہ یا شرعیہ میں ڈھانپی گئی ہے قدم قدم پر شرعی پابندیاں ہیں حرام اور حلال اور جائز و ناجائز کی حد بندیاں ہیں عبادت وہ امور شرعیہ کی مشقتوں کو برداشت کرنا ہے اور نواہی خواہشات سے اجتناب کرنا ہے نفس پر یہ چیزیں شاخ ہے برفانی ہواؤں میں بستہ پانی کے ساتھ صبح سویرے نماز کے لیے وضو بنانا اتنا مشکل ہے مشقتوں کے انہیں پردوں کے پیچھے جنت ہے جو انہیں یہ پردے طے ہو جائیں گے سامنے جنت نمودار ہو جائے گی

 خلاصہ یہ ہے کہ ظاہر بین اور ظاہر پرست بے اخل اور اجلت پسند لوگ ظاہری چہل پہل سے دھوکہ کھا جاتے ہیں اور حقیقت پسند اور عقلمند لوگ سنجید کی کے ساتھ مستقبل گہری نظر رکھتے ہیں اور حقیقت کو پا لیتے ہی

=================================================================================

 دانا بادشاہ اور عقلمند وزیر

فتح الباري شرح صحيح البخاري

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *